ایران کا اسلامی انقلاب ۔۔۔ ترقی و پیشرفت کی طرف گامزن - 1


ایران کا اسلامی انقلاب ۔۔۔ ترقی و پیشرفت کی طرف گامزن - 1

ایران میں عشرہ فجر کی مناسبت سے تقریبات کا آغاز ہوگیا ہے اور ہماری بھی کوشش ہوگی کہ اس عشرہ کی مناسبت سے اسلامی انقلاب سے متعلق مختلف موضوعات پر مضامین اور مقالات شائع کریں اس سلسلہ کا پہلا مضمون حاضر ہے.

خبر رساں ادارہ تسنیم: باره بهمن 1357  شمسی بمطابق یکم فروری 1979 ایرانی عوام کے لیے تاریخی، یادگار اور بهت سی امیدوں اور امنگوں کا مرکزو محور تھا. سب اس دن کے انتظار میں پریشان و بے تاب تھے. کیونکه ایرانی عوام چوده سال سے اپنی محبوب شخصیت حضرت امام خمینی(رح) کی ایران واپسی کے منتظر تھے. شاه کی حکومت کی صورت حال نیز حکومت کی طرف سے آپکے هوائی جهاز کو تهران اترنے کی اجازت نه دینے اور اسے فضا میں تباه کرنے جیسی دھمکیوں نے ملت ایران کو سخت پریشانی اور تشویش میں مبتلا کر رکھا تھا. تمام تر دھمکیوں کے باوجود شاه کی حکومت عوامی غیض و غضب اور غصے و انتقام سے ڈر کر یه جرات پید ا نه کر سکی که امام خمینی کے طیارے کو تهران اترنے سے روک سکے اور یوں بالاخر امام خمینی اپنے ساتھیوں سمیت یک فروری 1979 کو تهران کے مهرآباد هوائی اڈے  پر اترنے میں کامیاب هو گئے. اس دن اور امام خمینی کی آمد کو ایرانی  تاریخ بالخصوص اسلامی انقلاب کی تاریخ میں ایک اهم موڑ قرار دیا جا سکتا هے. یه اقدام پهلوی حکومت کے خاتمے اور اسکے تابوت میں آخری کیل ثابت هوا.

امام خمینی عظیم امنگوں اور بلندو ارفع انسانی و اسلامی افکار و نظریات کے ساتھ عوام کی نجات کے لیے ایک هم گیر پیغام اور اسے عملی طور پر نفاذ کرنے کے لیے ایران واپس آئے اور اس تھیوری کو عملی جامه پهنانے  کے لیے ایرانی عوام نے بے پناه کوشیش اور قربانیاں انجام دیں. امام خمینی  اور اسلامی  انقلاب کا پیغام آزادی، خودمختاری، عدل و انصاف، ظلم سے مقابله، مساوات اور باهمی بھائی چارے  پر مشتمل تھا. امام خمینی کا سب سے بڑا هدف عالم اسلام بالخصوص ایران کے لیے وقت کے تقاضوں کے مطابق ولایت فقیه کے زیر انتظام  ایک اسلامی حکومت  کا قیام تھا. اس طرح کے نظام حکومت کی بنیادیں شیعه سنی روایات اور قرآن وحدیث میں پهلے سے موجود تھیں اور اس میں حاکم اور حکومت  کرنے کی تعلیمات اسلام میں موجود تھیں لیکن امام خمینی کا کمال یه هے که آپ نے اس نظام حکومت کو عملی صورت میں نافذ  کر کے اسکی عقلی و نقلی بنیادوں کو تمام اهل عالم پر واضح کر دیا . آپ نے اس نظام کی فکری  بنیادوں کو بهت پهلے سے اپنی کتاب (حکومت اسلامی)ولایت فقیه میں پیش کر دیا تھا. آپ نے اس کتاب میں جس بنیادی  مسئلے اور موضوع کو دلائل و برهان کے ساتھ پیش کیا تھا وه یه تھا که دین الهی  صرف چند عبادات کا نهیں بلکه ایک مکمل  نظام کا نام هے جو سیاست سے لیکر معاشرے کے هر موضوع اور مسئلے کا حل پیش کرتا هے اور حکومت کے قیام اور حکومت کو چلانے کا باقاعده نظام دیتا هے۔

ولایت فقیه حقیقت میں ایسا اسلامی نظام حکومت هے جس میں ایک اسلام شناس  فقیه اور واجد شرائط  رهبریت کے زریعے  معاشرے کے امور کو چلانا هے. ولی فقیه وقت کے امام کا نائب اور اسکی غیبت میں معاشرتی امور کی قیادت کرنے کا ذمه دار هے . امام خمینی نے مختلف روایات و احادیث سے ولایت فقیه کو ثابت کیا هے . اس حوالے سے متعدد روایات موجود هیں. رسول خدا  نے علماء کو اپنا خلیفه اور پیغامبروں کا وارث قرار  دیا هے حضرت علیؑ علماء کو عوام کے حاکم گردانتے هیں آپ ایک حدیث میں اس موضوع پر روشنی ڈالتے  هوئے فرماتے هیں مسلمانوں کے بارے میں حکم خدا اور اسلام کی بنیاد پر مسلمانوں پر واجب هے که اپنے رهبر کی وفات یا قتل کے بعد چاهے وه گمراه هو یا هدایت یافته سب سے پهلے ایک عفیف، پرهیزگار اور احکام و سنت رسول سے آشنا شخص کو اپنا رهبر چنیں تاکه وه عوام الناس کے مال کا محافظ هو، حج اور نماز  کو برپا کرے اور صدقات اکٹھے کرے. اس حدیث کی روشنی میں مسلمانوں پر سب سے مقدم کام  شائسته رهبر اور قائد کا انتخاب هے.

حضرت امام خمینی فرماتے هیں : تمام امور کا سرچشمه اور بنیاد علماء کے هاتھ میں هے جیساکه وه حلال و حرام الهی کے امین هیں. امام زمان عج کے حوالے سے ایک حدیث که جس میں بڑی وضاحت کے ساتھ انهوں نے فقها کو اپنا جانشین  اور وارث قرار دیا هے . آپؑ فرماتے هیں حوادث و مسائل میں همارے راویان کیطرف رجوع کرو. وه میری طرف سے آپ پر حجت هیں اور میں حجت خدا هوں. اس حدیث کی روشنی میں مختلف  واقعات و مسائل اور  نئے پیش آنے والے مسائل کے لیے اسلام شناسوں سے رجوع کرنے پر تاکید کی گئی هے.
 ولایت فقیه کی ضرورت پر متعدد روایات اور دلائل موجود هیں ان میں سے بعض کی امام خمینی نے تشریح کی هے. ان میں سے ایک یه هے که وه معاشره جس میں اکثریت اسلامی اقدار پر عمل پیرا اور متدین افراد موجود هوں وهاں قدرتی طور پر ایک اسلامی حکومت هونی  چاهیے کیونکه انسانی زندگی اور معاشرے کے فرد اور اجتماع کی پیشرفت اور کمال الهی قوانین کے اجراء سے هی ممکن هے اور اسطرح کی حکومت کی قیادت و رهبری فرد کے پاس هونی چاهیے اسلام

احکامات اور علوم اسلامی میں  صاحب نظر اور مهارت و فهم کے حوالے سے اعلی درجے پر فائز هو. متقی هو اور  عدل و انصاف پر یقین رکھنے والا هو یهی شخص رهبر اور ولی فقیه کهلائے گا.

امام خمینی اپنی کتاب تحریر الوسیله میں لکھتے هیں:

 امام زمانه عج کی غیبت میں آپ کے نائبین واجد شرایط فقها هیں جو صاحب تقوی هیں اور سیاسی و حکومتی امور نیز وه تمام امور جو امام معصوم کے ذمه هیں ان کے نفاذ میں امام زمان کے نائب هیں اور ان امور کی انجام دهی انکے ذمه هے. امام خمینی مزید فرماتے هیں اسلام انفرادی پهلو کے ساتھ ساتھ اجتماعی اور سیاسی پهلو پر بھی توجه دیتا هے اور اسکے لیے ایک الهی حکومت کا قیام ضروری هے جسکی قیادت و رهبری ولی فقیه کے پاس هو. امام خمینی  ولایت فقیه نامی اپنی کتاب میں رقم طراز هیں" جو شخص بھی اسلامی تعلیمات میں احکام اسلامی پر ایک اجمالی نظر بھی ڈالتا هے تو  اسے پته چلتا هے که  جهاں عبادت یعنی انسان اور خالق کے تعلق کے حوالے سے احکام موجود هیں وهاں انسان کے اجتماعی مسائل  یعنی سماجی و سیاسی مسائل پر بھی توجه دی گئی هے. عبادات کی ایک جهت سمت اجتماعی امور کی انجام دهی بھی هے. اسلامی احکامات میں اقتصاد، سماجی اور سیاست کے بارے میں جو احکامات موجود هیں وه  بخوبی اس بات کی نشاندهی کرتے هیں که یه قوانین صرف عبادات تک محدود نهیں هیں. اسلام ایک ایسی حکومت کے تشکیل کے لیے هے جس میں تمام قوانین من جمله اقتصاد، سیاست، عدلیه، جزاو سزا اور سماجیات شامل هیں. امام خمینی اسی طرح عدل  و انصاف  کے قیام ، اسلامی تعلیم و تربیت، سرحدوں کی حفاظت، ٹیکسوں کی کولیکشن، عدلیه کے احکامات کے اجرا، امن و امان اور نظم و انصرام کا قیام، امر بالمعروف اور نهی عن المنکر وغیره کیطرف اشاره کرتے هوئے یه نتیجه لیتے هیں که ان  احکامات کا هونا اور ان پر عمل درآمد کے لیے ایک حکومت کا قیام ضروری هے. ایسا نظام حکومت جس میں الهی قوانین کو نافذ کیا جا سکے اور بلاشبه ایسی حکومت کا سربراه اور رهبر ایسا شخص هونا چاهیے جو الهی قوانین پر مکمل  دسترس رکھتا هو اور وه ولی فقیه کے علاوه کوئی اورنهیں هو سکتا. ایسا شخص جو  الهی قوانین کا علم رکھنے ساتھ ساتھ متقی اور پرهیزگار بھی هو .

امام خمینی ایک اور زاوئیے  سے بھی ولایت فقیه کی بنیادوں کو واضح کرتے هیں ولایت فقیه نامی کتاب میں اسکی تفصیل بیان کرتے هوئے فرماتے هیں:

هم ولایت پر ایمان رکھتے هیں همارا عقیده هے که رسول خدا اپنا جانشین و خلیفه متعین کرتے هیں اور انهوں نے متعین فرمایا اور عقلی بنیادوں پر ضروری هے  که خلیفه متعین کرنے کے لیے ایک حکومت کا هونا ضروری هے همیں ایسا خلیفه چاهیے جو احکام اسلامی نافذ کرے. قانون کے  لیے ضروری هے که کوئی نافذ کرنے والا بھی هو . صرف قانون سازی کافی نهیں بلکه قانون کا نفاذ بھی ضروری هے. صرف قوانین بنانے سے انسانیت کو فائده نهیں پهنچ سکتا  بلکه اسکا اجرا اور نفاذ بھی ضروری هے. یعنی مقننه کے ساتھ ساتھ  عدلیه اور  مجریه بھی ضروری هیں پس اسلام میں  بھی صرف مختلف مسائل من جمله سیاست، اقتصاد، سماج وغیره میں صرف قوانین اوراحکام اسلامی کا وجود هونا کافی نهیں هے. قرآن و حدیث میں موجود احکامات کا هونا کافی نهیں بلکه ان کا نفاذ بھی اتنا هی ضروری هے اور اس کے لیے ایک حکومت کا وجود ضروری هے اور بغیر حاکم اور سربراه کے حکومت کا تصور عبث هے. پس اسلامی احکامات کے نفاذ کے لیے ایک عادل ، قانون جاننے والا، متقی اور انسانوں کو سعادت و کامرانی کی منزل کیطرف لے جانے والا حاکم اور سربراه بھی ضروری هے.

امام خمینی کے مطابق خداوند عالم نے اسلامی احکامات یا قوانین بھیجنے کے ساتھ ساتھ ایک حکومتی نظام بھی بھیجا هے پس یه نتیجه نکالا جاسکتا هے که جس طرح رسول اکرم (ص) اسلامی احکامات الهی کو لانے والے تھے وهاں اسکو نافذ کرنا بھی انکی  ذمه داری تھا. خداوند عالم نے آپ کو سربراه اور مسلمانوں کا حاکم و حکمران بھی قراردیا هے اور انکی اطاعت کو واجب کیا هے. عادل فقیه بھی اسی طرح مسلمانوں کا حاکم و سربراه هونا چاهیے . وه اسلامی احکامات کے نفاذ کی نظارت کرے اور اجتماعی نظام کو قائم کرئے.
البته یهاں پر قابل غور نکته یه هے که هر فقیه اور اسلام شناس معاشرے کی قیادت نهیں کر سکتا . فرزند رسول امام صادقؑ فرماتے هیں: وه فقیه جو متقی، پرهیزگار محافظ دین، نفسانی خواهشات کا مخالف اور خداوند عالم کے اوامر کا مطیع هو عوام کو چاهیے که اسکی اطاعت کریں.

امام خمینی ولی فقیه کے لیے جن شرائط کو متعین کرتے هیں ان میں احکام اسلامی کا ادراک اور تقوی و پرهیزگاری بنیادی ضرورت هے.آپ فرماتے هیں اسلامی حکومت کیونکه قانونی حکومت بلکه الهی قوانین پر استوار حکومت هے پس اسکے حاکم میں دو صفات ضروری هیں ان میں ایک اسلامی قانون کا علم اور دوسری ضرورت عدل و انصاف

امام خمینی ولی فقیه کی صفات بیان کرتے هوئے فرماتے هیں: وه شخص جو ولی فقیه ولی امر مسلیمن اور نائب امیرالمومنین هو اسکے لیے ضروری هے که دنیا طلب نه هو اور دنیا کے لیے هاتھ پاؤں مارنے والا نه هو  اگرچه  یه جائز هے لیکن ولی فقیه هونے کی صورت میں اگر وه ایسا کرے گا تو وه الله کا امین نهیں رهے گا اور اس پر اعتماد نهیں کیا جا سکے گا ولی فقیه کے لیے ایک اور شرط اسکا مدبر منتظم هونا هے که امور  مملکت کو چلا سکے. ایران کے آئین کی پانچویں شق میں آیا هے که امام زمانه کی غیبت میں اسلامی جمهوریه ایران میں ولایت امر اور امامت امت اس فرد کے ذمه هے جو فقیه، عادل، متقی، زمانے سے آگاه، شجاع، منتظم اورمدیر و مدبر هو.

ایک نهایت اهم نکته یه هے که ایک ولی فقیه میں جب عدل و انصاف، تقوی، شجاعت اور اس طرح کی دیگر صفات ختم هو جائیں تو وه خود بخود اس مقام و مرتبے سے محروم هو جاتا هے اور یه وه بنیادی فرق هے جو اسلامی اور غیر اسلامی  منجله جمهوری اور استبدادی حکومتی نظاموں میں هے.

امام خمینی اس حوالے سے فرماتے هیں که وه صفات جو فقیه میں هیں انکی موجودگی  میں ممکن  ہی نهیں هے که وه غلط راستے پر گامزن هو. وه اگر ایک لفظ بھی جھوٹ کهے ، ایک لفظ یا ایک قدم خلاف اسلام اٹھائے وه اس کے بعد ولایت کے رتبے پر فائز نهیں هے. پس ولایت فقیه کے لیے بھی اسلام نے شرائط اور حدود و قیود واضع کی هیں اور اس پر نظارت کا سلسله قائم رکھا هے اسی وجه سے امام خمینی فرماتے هیں" ولایت فقیه کی پشتپناهی  کرو تاکه ملک کو کسی طرح کا نقصان نه پهنچے۔

جاری ہے ۔۔۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری