بحرین کی مظلوم انقلابی تحریک کے سات سال-2


بحرین کی مظلوم انقلابی تحریک کے سات سال-2

عالمی اداروں کے ساتھ ساتھ علاقے کی عرب تنظیموں خلیج فارس تعاون کونسل اور عرب لیگ نے بھی ڈکٹیٹر اور استبدادی حکومت کی بھرپور مدد کی اور بحرینی عوام کے جمہوری حقوق پر توجہ دینے سے گریز کیا۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: خلیج فارس تعاون چھ عرب ممالک پر مشتمل ایک علاقائی ادارہ ہے جس میں متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت، عمان اور  قطر شامل ہیں۔ اس کونسل کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس پر سعودی عرب کا  مکمل قبضہ اور تسلط ہے۔ سعودی عرب کی مرضی کے بغیر  یہ کسی قسم کا فیصلہ کرنے کی ہمت رکھتی  اسی تسلط کو سعودی عرب نے بحرین کے حوالے سے بھی استعمال کیا اور خلیج فارس  تعاون کونسل  سے بحرین کے عوام کو کسی بھی طرح کی حمایت نہ مل سکی بلکہ اس کونسل کی ہر اجلاس میں پہلے سے بڑھ کر آل خلیفہ کے استبدادی اقدامات کی حوصلہ افزائی کی گئی۔  14 مارچ 2011 کو بحرین کی عوامی تحریک  کو ابھی ایک ماہ مکمل ہوا تھا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے سپر جزیرہ کے تحت اپنی فوجیں بحرین میں اتار دیں اور آل خلیفہ حکومت کے حکم پر ان فوجیوں نے بحرین کے عوامی تحریک کو کچلنا شروع کیا۔

  اس فوج میں 1200 فوجی سعودی عرب سے اور پانچ سو متحدہ عرب سے شامل کیے گے تھے۔ سپر جزیرہ بنیادی طور پر خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک کے درمیان ایک فوجی معاہدہ ہے جسکے تحت اگر کسی ملک  پر بیرونی حملہ ہوتا ہے تو سپر جزیرہ معاہدے کے تحت  اس ملک کو بیرونی جارحیت سے بچانے کے لیے دوسرے رکن ممالک اپنے فوجی بھیج کر اس کا دفاع کریں گے۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ یہ معاہدہ بیرونی جارحیت سے دفاع کے لیے تھا  نہ داخلی اور اندرونی اعتراض یا حکومت مخالف پرامن تحریک کے خلاف ۔ حقیقت یہ ہے کہ خلیج فارس تعاون کونسل نے اپنے اقدامات سے اس بات کو ثابت کر دیا کہ وہ بحرینی عوام کے جاہز اور جمہوری مطالبات کو نہیں مانتی اور آل خلیفہ حکومت کے ساتھ ملکر ان کو کچلنے پر یقین رکھتی ہے۔ خلیج فارس  تعاون کونسل حقیقت میں اس وقت بحرینی عوام کے براہ راست مقابلے پر اتر آئی ہے۔

  اہم بات یہ ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی فوورسز کے بحرین میں داخلے کے صرف دو دن بعد یعنی 16 مارچ 2011 کو بحرین کے عوام کو سختی سے کچلنے  کی پالیسی پر عمل درآمد شروع کر دیا اور اس حوالے سے بحرین کے طبی مراکز اور عوامی اجتماعات پر حملوں کا خصوصی طور پر ذکر کیا جا سکتا ہے ۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی فورسز 16 مارچ کے دن ۔۔شہر کے اطراف کے علاقوں پر عوام کو سختی سے کچلنے کے لیے  عوامی اجتماعات  کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا اور علاقے کے سب سے بڑے ہسپتال  سلمانیہ جیسے سب سے بڑا سرکاری ہسپتال سمجھا جاتا ہے اسکا محاصرہ کر کے نہ صرف زخمیوں کو  ہسپتال جانے سے روکا بلکہ  انھیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔

ان بیرونی فورسز کی پہلے دو دن کی کاروائیوں میں چھ بحرینی شہری جاں بحق ہو گے۔ اسکے بعد ان فورسز کے حملوں میں شدت آگئی اور بحرین کے مختلف شہروں اور علاقوں مین ہونے والے مظاہروں کو بیرونی فورسز نے سختی سے کچلنا شروع کر دیا۔ ان فورسز نے عوام پر ظلم و تشدد کا بازار گرم کیا گیا جس کے نتیجے میں آل خلیفہ حکومت  اور احتجاجی عوام کے درمیان اختلاف کی خلیج میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا ۔ عوام پرامن مظاہروں کے زریعے  اپنے جمہوری حق کا مطالبہ کر رہے تھے جبکہ آل خلیفہ کی بیرونی اور حکومتی فورسز بحرینی عوام کے خلاف تشدد آمیز پالیسیاں اپنا کر ان کے جمہوری حقوق پامال کرنے لگی۔

  سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی فورسز کی بحرینی آمد سے آل خلیفہ حکومت کو تقویت ملی اور عوامی احتجاج کرنے والے عوام کو وقتی طور پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بیرونی فورسز نے وقتی طور پر تو آل خلیفہ حکومت کو سہارا دے دیا لیکن عوام  کے قلب و ذہن میں آل خلیفہ حکومت کے خلف نفرتوں میں مزید اضافہ ہوا  اور عوام ان حکمرانوں کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے مزید سنجیدہ ہو گے۔ سعودی فورسز کے غیر انسانی تشدد کی بعد بحرینی عوام کے اذہان میں یہ تاثر  قوی ہو گیا کہ بحرینی حکومت نے باہر کی  فورسز بلا کر ان کو کچلنے کی پالیسی پر عمل کیا ہے لہذا یہ بحرین کے عوام کی نہیں باہر یے مسلط کردہ ڈکٹیٹر  حکومت ہے جسے بحرینی عوام سے کسی طرح کی کوئی ہمدردی نہیں۔

  سعودی عرب نے فوجی لشکر بھیجنے کے ساتھ ساتھ خلیج فارس تعاون میں بحرین کی حکومت کے لیے 20 ارب ڈالر کی رقم مخصوص کی  تاکہ بحرینی حکومت اس رقم کو مخالفین کو دے کر انہیں تحریک سے باہر رکھے اور اپنے حامیوں کو مزید فنڈز دے تاکہ وہ مخالفین کو کچلنے میں حکومت کا ساتھ دے۔ آل خلیفہ حکومت نے اس پیسے سے بحرین کے حکومتی مخالف عوام کو خریدنے کی کوشش کی تاکہ عوامی تحریک ٹھنڈی پڑ جائے۔ سعودی عرب نے خلیج فارس تعاون کونسل کے زریعے نہ صرف اپنے فوجی تحرین میں بھیجے بلکہ اس سے اور بھی کئی مقاصد حاصل کیے۔ سعودی عرب نے مئی 2012 کے خلیج فارس تعاون کونسل میں اس کونسل کے رکن ممالک کے درمیان نا تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے تعاون کی بجائے اتحاد کی تجویز دی جسے بحرین کی آل خلیفہ  حکومت کے علاوہ کسی نے زیادہ اہمیت نہ دی۔ کویت اور قطر نے اسکی مخالفت کی جبکہ متحدہ عرب امارات اور عمان نے  اجلاس میں شرکت نہ کی البتہ اس سے یہ ضرور ثابت ہوگیا کہ خلیج فارس تعاون کے اندر بھی اختلاف موجود ہیں۔ بحرین کی عوامی جمہوری تحریک کے حوالے سے بھی خلیج فارس تعاون کونسل کے اندر اختلافات موجود ہیں جس کی گزشتہ سات سالوں میں کئی مثالیں سامنے آ ئی ہیں۔ سعودی عرب فوجی مداخلت کے زریعے بحرین کے حل کا قائل ہے جبکہ قطر اور کویت سیاسی  راستے سے بحرین کے بحران کو حل کرنے پریقین رکھتے ہیں۔ کویت نے کوشش کی کہ آل خلیفہ حکومت اور حکومت مخالف عوام کے درمیان ثالثی  کاکردار ادا کرے  لیکن اس میں اسے خاطر خواہ کامیابی نصیب نہ ہوئی ۔ قطر نے تجویز دی تھی کہ دو ماہ کے اندر اندر  ایک  عبوری حکومت تشکیل دی جائے اور سعودی عرب اور متحدہ عرب کی فوجیں بحرین کو ترک کر دیں۔ اس تجویز کو بحرین کی عوامی تحریک کی قیادت نے قبول کر لیا لیکن بحرین کی آل خلیفہ حکومت  اور سعودی عرب نے اسکی شدید مخالفت کی ۔

  ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ سعودی عرب خلیج فارس تعاون کونسل سے ایران فوبیا بھی کام لے رہا ہے۔ وہ ایران مخالف اپنے  اہداف کو اس کونسل کے زریعے پورے کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ آل خلیفہ حکومت اور سعودی عرب نے گزشتہ سات سالوں میں بھرپور کوشش کی کہ بحرین کی عوامی  جمہوری  تحریک کو ایک فرقہ وارانہ تحریک کے طور پر پیش کریں اور اس کے سائے میں ایران پر مداخلت کے تکراری الزام لگائیں۔ سعودی عرب اور آل خلیفہ حکومت  اندرونی اور بیرونی پلیٹ فارموں پر اس بات کا شدید پروپگنڈا کیا کہ ایران بحرین میں ایک شیعہ حکومت بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور بحرین کی عوامی جمہوری تحریک ایرانی مداخلت کا مرتکب ہو رہا ہے۔ ایران کا ہمیشہ سے یہ موقف ہے کہ بحرین میں جاری تحریک بھی اسی طرح کی ایک عوامی جمہوری تحری ہے جو خطے کے دوسرے عرب ممالک میں شروع ہوئی بحرین کے عوام بھی استبدادی حکومت سے چھٹکارا پاکر جمہوری اقدار پر استوار عوامی حکومت کے خواہشمند ہیں۔ ایران نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے کہ بحرین میں  فرقہ وارانہ کشیدگی نہیں۔ اور نہ ہی ایران بحرین میں کسی قسم کی مداخلت کا مرتکب ہو رہا ہے۔

  بحرین کے بادشاہ نے انہی الزامات کے تناظر میں نومبر 2011 میں ایک کمیشن تشکیل دیا تھا جسکی سربراہی شرین بحسونی کے پاس تھی شرین بیسونی نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں واضح طور پر  لکھا ہے کہ " آل خلیفہ حکومت نے مخالفین اور ایران کے درمیان کوئی واضح تعلق اور رابطہ موجود نہیں ہے۔

513 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ کے صفحہ نمبر376 میں آیا ہے کہ آل خلیفہ حکومت ایسا کئی ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں کامیاب  نہیں ہو سکی جس سے ثابت ہو کہ  بحرین کے حالیہ حکومتی مخالف تحریک میں ایران کا ہاتھ ہے۔

 بحرین میں امریکہ کے سفیر کراجسکی نے بھی 21 ستمبر 2011 میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکہ کے پاس ایسے کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہیں جس سے  یہ پتہ چلتا ہو کہ بحرین کی ناامنی میں ایران کا کردار ہے۔

یہ بات کھل کر بیان کی جاسکتی ہے کہ خلیج فارس تعاون کونسل عرب بادشاہوں کی حمایت کا ایک کلپ ہے اور بحرین  کے مسئلے میں اسکی کارکردگی مزید کھل کر سامنے آگئی ہے۔ معروف تجزیہ نگار کریٹسن کورٹ کے بقول بحرین کے بحران کی وجہ سے خلیج فارس تعاون کونسل  کے زوال کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔

  عرب دنیا کا ایک اور اہم ادارہ عرب لیگ ہے عرب لیگ کا  بھی بحرین میں کردار نہ ہونے کے برابر تھا ۔عرب لیگ / خلیج فارس تعاون کونسل کی طرح مکمل طور پر آل خلیفہ حکومت کی حمایت میں تو نہ آئی لیکن اس نے بحرینی عوام کے لیے بھی  کوئی خاص قدم نہ اٹھایا حالانکہ شام  اور لیبیا کے مسئلے میں اس ادارے نے مسلط حکومتوں کی مخالفت کی اور عوام کی حمایت کی اور یہاں تک کہ عرب لیگ  سے شام کی رکنیت کو معطل کر دیاگیا۔

  اسی طرح لیبیا کی نمائندگی بھی حکومت مخالف ایک گروپ کو دے دی گئی۔ اس تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ عرب لیگ نے بھی  اپنی خاموشی سے بلواسطہ آل خلیفہ حکومت کی حمایت کی۔ یہاں پر سوال یہ ہے کہ عرب ممالک پر مشتمل اداروں نے کس لیے  تیونس، مصر ، لیبیا اور شام میں تو حکمرانوں کی مخالفت کی اورعوام کی حمایت کا اعلان کیا لیکن بحرین میں اس پالیسی کو نہیں اپنایا گیا۔

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ تیونس اور مصر کا انقلاب تقریبا ایک ماہ کے عرصے میں اپنے نتیجے  پر پہنچ گیا لہذا عرب لیگ اور خلیج فارس تعاون کونسل کو اس بارے میں متفقہ موقف اپنانے کا موقع ہی نہ مل سکا ۔  یمن میں بھی خلیج فارس تعاون کونسل نے علی عبداللہ صالح کو اقتدار  حسب باقی رکھنے پر بھرپور کوشش کی لیکن عوام کے عظیم دباؤ کے سامنے یہ کونسل ٹھہر نہ سکی۔ شام اور لیبیا میں بھی عرب حکمرانوں نے مغربی ممالک کے اشاروں پر قذافی اور بشااسد کی مخالفت کی

تاہم بحرین کی صورت حال مختلف ہے۔ بحرین جغرافیائی حوالے سے سعودی عرب اور مغربی ممالک کے تابع ہے ۔ آل خلیفہ خاندان کے سعودی عرب کے آل خلیفہ خاندان سے نہایت قریبی تعلقات ہیں۔ بحرین جغرافیائی حوالے سے امریکہ اور برطانیہ کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ بحرین میں آل خلیفہ حکومت کی شکست سعودی اور مغربی طاقتوں کی شکست ہے دوسری طرف بحرین میں شیعہ مسلمانوں کی اکثریت ہے اور آل خلیفہ حکومت کے خاتمے سے بحرین میں بھی عراق کی طرح صورت حال پیدا ہو سکتی ہے اور اکثریتی آبادی کے  منتخب افراد حکومت  میں آسکتے ہیں اور یہ وہ مسئلہ ہے جسکو آل سعود سمیت امریکہ اور برطانیہ اسکو تسلیم کرنے پر تیار ہو سکتے ہیں  بہت سے تجزیہ کاروں کا یہی کہنا ہے ک آل سعود سمیت بعض عرب ممالک کے حکمرانوں اورامریکہ سمیت مغرب کے بعض دیگر ممالک بحرین کے عوام  کے جمہوری حقوق پر کان دھرنے کو تیار نہیں اور اس عوامی جمہوری انقلاب کی حمایت نہیں کر رہے ہیں اور  اسے مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں۔

گراہم فوسر نے کافی عرصہ پہلے  جو بات کہی تھی آج وہ سچ ثابت ہو رہی ہے  بحرین کے شیعہ مسلمانوں کو بھلا دیا گیا ہے اور انہیں ایک منظم اور  سسٹیمیٹک   طریقے سے امتیازی رویوں اور  ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری