نواز شریف کی پارٹی صدارت سے نااہلی پر سیاسی رہنماؤں کا ردعمل


نواز شریف کی پارٹی صدارت سے نااہلی پر سیاسی رہنماؤں کا ردعمل

سپریم کورٹ کی جانب سے وزارت عظمیٰ کیلئے نااہل قرار دینے والے سابق پاکستانی وزیراعظم کو پارٹی صدارت سے بھی نااہل قرار دیا گیا ہے جس پر قومی سیاسی رہنماؤں نے مختلف رد عمل کا اظہار کیا ہے۔

خبررساں ادارے تسنیم کے مطابق سپریم کورٹ نے الیکشن ایکٹ 2017 سے متعلق کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو پارٹی کی صدارت کے لیے بھی نااہل قرار دے دیا ہے، ایک جانب مسلم لیگ (ن) کے رہنما عدالتی فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں تو وہیں دیگر سیاسی قائدین فیصلے کو حق بجانب قرار دے رہے ہیں۔

 نوازشریف آپ جیت گئے ہیں، مریم نواز

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز نے اپنے والد نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ نوازشریف آپ جیت گئے ہیں۔ جب کہ انصاف کے اعلی ترین ادارے آپ کے خلاف فیصلے نہیں بلکہ آپکی سچائی کی گواہی اور موقف کے حق میں ثبوت پیش کر رہے ہیں۔

ایک شخص کو نشانہ بنایا گیا، مریم اورنگزیب

سپریم کورٹ کے فیصلے پر وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے ایکسپریس نیوز سے خصوصی گفتگو کے دوران کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تعصب پر مبنی ہے، اس میں صرف ایک شخص کو نشانہ بنایا گیا، مسلم لیگ (ن) پاکستان کی سب سے بڑی جماعت ہے، اس فیصلے کا مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف پر کوئی اثر نہیں ہوگا، نواز شریف جس پر ہاتھ رکھیں گے وہ وزیر اعظم ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹ کے الیکشن کسی کی بھی وجہ سےملتوی ہوئے وہ پاکستان اور جمہوریت کے لئے اچھا نہیں ہوگا۔

فیصلہ نہ مانا تو انتشار پھیلے گا، خورشید شاہ

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا کہ میں نواز شریف کو بہت مشورے دیتا تھا لیکن اب میں انہیں کوئی مشورہ نہیں دوں گا، جو پارلیمنٹ کے اندر نہیں جاسکتا، پارٹی کا ٹکٹ نہیں دے سکتا وہ پارٹی کا سربراہ کیسے ہوسکتا ہے۔ عدالتی فیصلہ نہ مانا گیا تو ملک میں انتشار پھیلے گا۔

(ن) لیگ تصادم کی راہ پر چل پڑی، مولا بخش چانڈیو

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما مولا بخش چانڈیو کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے کرپشن کے مقدمات میں عدالتی محاذ پر شکست کھانے کے بعد تصادم کی سیاست کا آغاز کیا، انہوں نے جس طریقے سے عدلیہ اور دوسرے اداروں کے لئے اشتعال بڑھایا، وہ سب کو محسوس ہو گیا تھا، پاناما کیس کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ (ن) حواس باختہ ہوکر اداروں سے تصادم کی راہ پر چل پڑی ہے، مسلم لیگ (ن) نے اکثریت کے بل پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو روندا تھا، جس کا یہ نتیجہ تو نکلنا تھا، مسلم لیگ (ن) تصادم کرکے سینیٹ اورعام انتخابات کا التوا چاہ رہی تھی، اب (ن) لیگ عدالتی فیصلے کی آڑ میں انتخابات کے التوا کی خواہش پوری کرنے کی کوشش کرے گی، تحریک انصاف کو معاملے کے سنجیدگی اور حساسیت کا احساس ہی نہیں اور اس فیصلے کے دوررس اثرات سے ناواقف ہے۔

فیصلہ بالکل ٹھیک ہے، نعیم الحق

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما نعیم الحق نے ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بالکل ٹھیک ہے اور ہم اس کی تائید کرتے ہیں، پاکستان میں قوانین کی سربلندی ہونی چاہئے، نواز شریف کی جانب سے اداروں کو گندہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی، آج سپریم کورٹ کا فیصلہ ان کے منہ پر طمانچہ ہے۔

سپریم کورٹ تحسین کی حقدار، فواد چوہدری

تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے کہا ہے کہ آج کا فیصلہ ہر پہلو سے تاریخی اور سپریم کورٹ تحسین کی حقدار ہے،  سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے اپنے تاریخی فیصلے کے ذریعے اہم اصول طے کیا ہے کہ ایک بددیانت، خائن اور عدالت سے سزا یافتہ شخص کو پارٹی صدارت پر بٹھانا آئین و قانون کے ساتھ مذاق تھا، ایک شخص کی کرپشن بچانے کیلئے ملک اور پوری سیاست داؤ پر نہیں لگائی جاسکتی، مسلم لیگ (ن) نے ایک نااہل شخص پر پارٹی صدارت کا دروازہ کھول کر سیاست کے دامن میں آلائشیں ڈالنے کی کوشش کی، مسلم لیگ (ن) اپنے لئے نئے لیڈر کا انتخاب کرے اور سیاست کو آگے بڑھنے دے۔

آئینی ادارے کا فیصلہ مانناچاہیے، فاروق ستار

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ سپریم کورٹ ایک آئینی اور ریاستی ادارہ ہے، اسی ادارے نے آج نوازشریف کو پارٹی سربراہ کی حیثیت سے نا اہل قرار دیا ہے، مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کو اس فیصلے سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن آئینی ادارے کے فیصلے کو ماننا  اور اس پر عمل بھی ہونا چاہیے۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ نوازشریف آپ جیت گئے ہیں، عدالت کا فیصلہ پاناما کیس کی کڑی ہے، ہمیں ایسے فیصلے کی ہی توقع تھی۔ اس طرح کے فیصلوں سے نواز شریف مائنس نہیں ہوسکتے بلکہ اس سے ہ مزید مضبوط اور ان کا بیانیہ مقبول ہوگا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق رہنماؤں کا کہنا تھا کہ نااہلیاں، جلاوطنیاں، دھمکیاں، الزامات، سازشیں اور مقدمات سیاست کا دھارا بدل سکی ہیں نہ بدل سکیں گی،اقامہ کافیصلہ بھی کسی نے تسلیم نہیں کیا تھا اس فیصلے کو بھی عوام نہیں مانیں گے۔ مسلم لیگ (ن)اسی لائن پر چلے گی جس کا فیصلہ نواز شریف کریں گے۔

مریم نواز نے اپنے والد نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے پر ٹوئٹر پر ردعمل دیتے ہوئے کہاکہ انصاف کے اعلی ترین ادارے آپ کے خلاف فیصلے نہیں بلکہ آپکی سچائی کی گواہی اور موقف کے حق میں ثبوت پیش کر رہے ہیں۔ انھوں نے نواز شریف کی تصویر بھی ٹوئٹ کی جس میں تحریر ہے کہ میں بھی نواز ہوں اور حق کیلیے لڑنا جانتا ہوں، منصفوں نے آج خود ان باتوں کی تائید کی جن باتوں پر نوازشریف کو توہین عدالت کا نوٹس دیا تھا۔

خواجہ سعد رفیق نے کہاکہ نااہلیاں، جلاوطنیاں، دھمکیاں، الزامات، سازشیں اور مقدمات سیاست کا دھارا بدل سکی ہیں نہ بدل سکیں گی، جو دل میں بس رہا ہے حکومت اسی کی ہے۔

وفاقی وزیر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ اقامہ کا فیصلہ بھی عوام نے تسلیم نہیں کیا تھا ، اس فیصلے کو بھی عوام نہیں مانیں گے۔ وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا کہ توقع تھی کہ ایسا ہی فیصلہ آئے گا، نواز شریف کا بیانیہ مزید مقبول ہوگا، ایک کمزور فیصلے کے دفاع میں تمام فیصلے آ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ (ن) لیگ کے تمام فیصلے نواز شریف ہی کریں گے، سینیٹ انتخابات وقت پر ہونے چاہئیں، سینیٹ الیکشن ملتوی ہونا کسی کے مفاد میں نہیں، نواز شریف مسلم لیگ (ن) کے قائد تھے اور رہیں گے، آج کا فیصلہ پاناما کیس فیصلے کی ایک کڑی ہے، ایک ہی خاندان اور پارٹی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، ہم نے عدالتوں کا ہر فیصلہ قبول کیا ہے، آئندہ پارٹی صدر کا فیصلہ نواز شریف کریںگے، وہ ہی مسلم لیگ (ن) کے صدر کو منتخب کریں گے، سنیٹ امیدواروں کا فیصلہ نواز شریف کی مشاورت سے ہو گا، واحد جماعت (ن) لیگ ہے جس میں جمہوریت زندہ ہے۔

طلال چودھری نے کہا کہ اس طرح کے فیصلوں سے نواز شریف مائنس نہیں ہوسکتا بلکہ اس سے مزید مضبوط ہوگا، مسلم لیگ کا نام ہی مسلم لیگ نواز ہے اور وہ ایک مقبول لیڈر ہیں، سیدھی طرح کہا جائے کہ نواز لیگ کو انتخابات میں حصہ نہیں لینے دیں گے کیونکہ نواز شریف کو ہرانے کیلئے سیاسی طریقے کامیاب نہیں ہو پا رہے، فیصلے نواز شریف کو نقصان نہیں بلکہ ان کے بیانیے کو بڑھا رہے ہیں اور اس طرح نواز شریف مائنس نہیں ہوگا۔

وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اﷲ نے کہا نواز شریف مسلم لیگ (ن)کے قائد اور رہبر ہیں اور ان کی رہنمائی میں ملک کی خدمت کرنے کیلئے کسی عدالتی فیصلے کی ضرورت نہیں، ان فیصلوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، سیاسی طور پر عوام کی ہمدردی کو آمریت کے فیصلوں سے نہ پہلے روکا جا سکا تھا اور نہ اب روکا جا سکے گا، مسلم لیگ (ن)اسی لائن پر چلے گی جس کا فیصلہ نواز شریف کریں گے۔

مصدق ملک نے کہاکہ پچھلے 8،9ماہ سے کہاں ہمارے لئے اچھی خبریں آرہی ہیں؟ سابق وزیراعظم کی پارٹی صدارت سے نااہلی کے فیصلے پر رد عمل عوام دیں گے اور عوام عدالتوں کے فیصلے مسترد کر رہے ہیں، کس کس چیز کو دبایا جائے گا لیکن جواب عوام دیں گے، عوام کا ردعمل کیسے روکا جائیگا ٗعدالتی فیصلے کے ذریعے پارٹی سے تو ہٹا دیا لیکن دلوں سے کیسے ہٹائیں گے۔

مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین راجہ ظفر الحق نے کہاکہ نواز شریف پاکستان کے سب سے تجربہ کار اور بڑے لیڈر ہیں، ان کی لیڈرشپ کو کوئی نہیں روک سکتا، عہدے آنی جانی چیزیں ہیں، ہماری قیادت بیٹھ کر پارٹی صدارت پر فیصلہ کرے گی، شہباز شریف کو پارٹی صدر بنانے کا ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔

عابد شیر علی نے کہاکہ احتجاج ، احتجاج ، احتجاج، نواز شریف ہمیں تم سے پیار ہے، میرا لیڈر میاں نواز شریف ہے۔

دریں اثنا سابق وزیر اعظم نواز شریف اوروزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ ہوا جس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر تبادلہ خیا ل کیا گیا۔ دونوں رہنمائوں کے درمیان رابطے میں پارٹی صدارت سمیت مستقبل کی حکمت عملی بارے تبادلہ خیال کیاگیا۔

قبل ازیں مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نوازشریف نے جاتی امراء میں پارٹی وفود سے گفتگو کے دوران کہاکہ ایک ادارے کے ہاتھ پار لیمان کے گر یبان تک پہنچ چکے ہیں، اگر پارلیمنٹ کے بنائے قانون کو بھی اپنی صوابدید اور من مانی تعبیر کے ذریعے ختم کر دیا گیا تو یہ ایک خطر ناک عمل ہوگا‘ اگر انتظامیہ کسی کی تقر ری اور تبادلہ تک نہیں کر سکتی اور پارلیمنٹ کے قانون بھی عدالتی توثیق کے محتاج ہوجائے تو یہ کون سا آئین ہے ؟1973سے لیکر آج تک آئین کوکوئی زخم پار لیمنٹ نے نہیں لگایا سارے زخم صرف عدلیہ کے کچھ جج صاحبان کی مدد سے ملکر آمروں نے لگائے۔

نوازشریف نے کہا کہ  آئین بلاشبہ ریاست کانظام چلانے کیلیے سب سے مقدس دستاویزہے، لیکن یہ دستاویزعوام کے منتخب نمائندوں پرمشتمل پارلیمنٹ بناتی ہے، جج صاحبان کاآئین کومقدس اور بالاتردستاویزقراردیناخوش آئند ہے‘ پارلیمنٹ کوعدلیہ اورانتظامیہ کے ساتھ ایک ریاستی ستون کہاجاتاہے۔

انہوں نے کہا کہ خوشی کی بات ہے کہ ہمارے جج صاحبان نے آئین کو مقد س اور بالادستاویز قرار دیا ہے اگر ہماری عدلیہ کا کچھ حصہ حقیقی معنوں میں ایسا ہی سمجھتا تو70بر س کے دوران نہ جمہوریت رسوا ہوتی اور نہ ہی آئین روندنے والوں کو دفاداری کے حلف اٹھائے جاتے نہ ڈکٹیٹروں کو آئین میں من مانی ترامیم کی اجازت دی جاتی، پارلیمنٹ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والا بالاترین ادارہ ہے جو تمام اداروں کی حدود کو تعین کرتا ہے اس کو آئین میں ترامیم کا بھی اختیار حاصل ہے آئین بنانے اور آئین میں ترامیم کا اختیار رکھنے والے منتخب ادارے کی اتھارٹی کوچیلنج کرنا ریاستی نظام کو چیلنج کرنا ہے۔

نوازشریف نے کہا کہ پارلیمنٹ کے بنائے قانون کی تشریح وتعبیر کی ضرورت ہے بھی تو اسے پارلیمنٹ کی طرف بھیج دینا چاہیے تاکہ وہ اس کے ابہام کو دور کر دے، اگر انتظامیہ کسی کی تقر ری اور تبادلہ تک نہیں کر سکتی اور پار لیمنٹ کے قانون بھی عدالتی توثیق کے محتاج ہوجائے تو یہ کون سا آئین ہے ؟کم ازکم ہمارا آئین تویہ نہیں کہتا، آج جو کچھ ہورہاہے وہ پوری قوم دیکھ رہی ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ اس باشعور قوم کو پوری طرح احساس ہوگیاہے کہ ایک فرد یا ایک خاندان کو نشانہ بنانے کیلئے کس طرح کے حر بے اختیار کیے جا رہے ہیں اور کیوں آئین کو بھی تماشا بنانے کی کوشش ہو رہی ہیں۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری