اعظم طارق قتل کیس میں نامزد ملزم سبطین کاظمی بری


اعظم طارق قتل کیس میں نامزد ملزم سبطین کاظمی بری

کالعدم سپاہِ صحابہ کے سابق سرغنہ اعظم طارق کے قتل کیس میں دارالحکومت اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے گرفتار ملزم سبطین کاظمی کو بری کردیا۔

خبررساں ادارے تسنیم کے مطابق اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے اعظم طارق قتل کیس میں ملزم کو بری کرنے کا فیصلہ سنایا۔

واضح رہے کہ سبطین کاظمی کو 11 مئی 2017 کو بینظیر انٹرنیشنل ائیرپورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا ان پر اعظم طارق کو 2003 میں کشمیر ہائی وے پر قتل کرنے کا الزام تھا۔

16 مئی 2017 کی ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق مولانا اعظم طارق قتل کیس کی تحقیقات کے لیے قائم نئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنے پہلے اجلاس میں کیس کی اب تک کی تفتیش پر غور کیا تھا، جس میں سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) انویسٹی گیشن حسن اقبال کی سربراہی میں قائم کمیٹی میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) صدر، سی آئی ڈی انسپیکٹر، اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) گولڑہ اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کا نمائندہ شامل تھے۔

اجلاس کے دوران جے آئی ٹی نے قتل کے مرکزی ملزم سبطین کاظمی سے بھی پوچھ گچھ کی گئی تھی۔

یاد رہے کہ 11 مئی 2017 کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے کالعدم سپاہِ صحابہ کے سربراہ اعظم طارق کے قتل کیس کے مرکزی ملزم سبطین کاظمی کو بیرون ملک فرار ہوتے ہوئے اسلام آباد کے بینظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ 1990 کی دہائی میں حق نواز جھنگوی کے قتل کے بعد اعظم طارق سپاہِ صحابہ (موجودہ اہل سنت والجماعت) کے سربراہ بن گئے تھے، 1993 کے انتخابات میں وہ جھنگ کے حلقہ این اے 68 سے 55,004 ووٹ لے کر فتح یاب ہوئے، تاہم 1997 میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کے ہاتھوں یہ نشست کھو بیٹھے۔

2002 کے انتخابات میں جھنگ کے حلقہ این اے 89 کی نشست جیت کر اعظم طارق ایک مرتبہ پھر قومی اسمبلی میں لوٹ آئے، انہوں نے طاہر القادری کو شکست دی تھی۔

سابق رکن قومی اسمبلی اعظم طارق جھنگ سے پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد آرہے تھے کہ نامعلوم افراد نے ان کی گاڑی پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں اعظم طارق، ان کے تین محافظ اور ڈرائیور ہلاک ہوگیا تھا۔

بعد ازاں اعظم طارق کے قتل کا مقدمہ تھانہ گولڑہ میں درج کیا گیا تھا اور ایف آئی آر میں سبطین کاظمی کو مرکزی ملزم کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔

حکومت نے ان کی گرفتاری کے لیے 10 لاکھ روپے انعام بھی مقرر کر رکھا تھا۔

علاوہ ازیں اعظم طارق کے قتل کے مقدمے میں علامہ ساجد نقوی اور نواب امان اللہ سیال کو بھی گرفتار کیا گیا تھا تاہم انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 2004 میں دونوں شخصیات کی رہائی کا حکم دیا تھا۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری