خصوصی انٹرویو | پاک ایران تجارت کے حوالے سے اہم انکشافات/ اگر بینک ملی ایران کو کراچی میں شاخ کھولنے کی اجازت دیدی جائے تو معاملات حل ہو سکتے ہیں


خصوصی انٹرویو | پاک ایران تجارت کے حوالے سے اہم انکشافات/ اگر بینک ملی ایران کو کراچی میں شاخ کھولنے کی اجازت دیدی جائے تو معاملات حل ہو سکتے ہیں

وزارت تجارت کی ڈپٹی سیکرٹری ماریہ قاضی نے حالیہ تجارت وفد، پاک ایران تجارتی فورم اور بینکنگ چینل سے متعلق اہم انکشافات کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا کے ساتھ ایران کا بینکنگ چینل بہت پہلے سے کام کر رہا ہے، انڈیا کا بینک یونین آف کلکتہ ایران پر پابندیوں کے دوران بھی ان کے ساتھ کام کر تا رہا ہے۔

خبررساں ادارے تسنیم کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے وزارت تجارت کی ڈپٹی سیکرٹری ماریہ قاضی کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ ترکی کا ایک بینک، دوبئی کے دو بینک اور چین کا ایک بینک، یہ پابندیوں کے دوران، حتیٰ کہ اقوام متحدہ کی پابندیوں کے باوجود ایران کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے بینک بنا دیئے گئے ہیں جو صرف ایران کے ساتھ ہی کام کرتے ہیں۔ ان بینکوں کو اگر امریکہ بلیک لسٹ کر بھی دے تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ بینک تیل اور دیگر شعبوں کی ادائیگیوں کے لئے کام کرتے ہیں اور امریکہ نے ان کی طرف سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔

ایک سوال پر کہ انڈیا میں ایران کے بینک کھل رہے ہیں، کیا ہم اپنے ملک میں ایران کے بینکوں کو اجازت نہیں دے سکتے، تو ماریہ قاضی کا کہنا تھا کہ ہمارے پرائیویٹ بینک راضی نہیں ہیں، امریکہ کی جانب سے حبیب بینک پر عائد جرمانوں کے بعد دیگر بینک بہت خوفزدہ ہیں۔ حتیٰ کہ ایرانی ایمبیسی کے اکاونٹس انہوں نے بند کر دیئے تھے۔  حالیہ مذاکرات کے دوران بھی بینکنگ معاملے کا حل نہیں نکل پایا۔ 

تجارتی حجم کے اعداد و شمار میں دونوں ممالک کے مابین تضاد موجود ہے، پاکستان کا موقف ہے کہ تجارتی حجم318 ملین ڈالر ہے جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ ایک بلین ڈالر تجارت ہو رہی ہے۔ 

اس فرق کی وجہ تیسرا فریق یا سمگلنگ ہیں۔ کوئٹہ اور چمن کے لوگ مال بیچ دیتے ہیں لیکن پیسے خود ایران جاکر لیتے ہیں، بینکنگ چینل نہ ہونے کے باعث یہ پیسے ریکارڈ میں نہیں آسکتے۔

ایرانی تجارت میں بہت زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں، گزشتہ ایف ٹی اے کی میٹنگ کے دوران جب ہم نومبر میں ایران گئے تو تمام متعلقہ شعبوں سے مذاکرات ہوئے۔ جہاد ایگری کلچر، سائنس ٹیکنالوجی اور دیگر کا پچیس ارکارن پر مشتمل مذاکراتی وفد تھا۔ 

ایف ٹی اے کا چوتھا راونڈ مارچ میں ہونا تھا لیکن ایران کے حالیہ تجارتی دورے کے باعث اب وہ اپریل میں ہوگا۔

لیکن اصل بات یہ ہے کہ ایف ٹی اے اگر مکمل ہو بھی جائے تو فائدہ نہیں ہے چونکہ اصل رکاوٹ اس وقت بینکنگ چینل ہیں۔ وہ جب تک بحال نہیں ہوتے معاملہ حل نہیں ہوگا۔

ہمیں کسی نہ کسی بینک کو راضی کرنا ہوگا۔ چونکہ انٹرنیشنل ٹرانزیکشن امریکہ کے ذریعے ہوتی ہے تو کوئی بینک رسک لینے کے لئے تیار نہیں ہے۔

گزشتہ مذاکرات کے موقع پر ایرانی آئی پی او کے سربراہ میر ہادی سیدی نے کہا تھا کہ ایران کا بینک ملی کراچی میں اپنی شاخ کھولنے کے لئے تیار ہے لیکن اسٹیٹ بینک نے انہیں بھی اجازت نہیں دی۔

ایم او یو سائن ہو جاتے ہیں لیکن عمل درآمد نہیں ہوتا۔ ایم او یو تو کاسمیٹک شے ہے۔

اگر بینک ملی ایران کو کراچی میں شاخ کھولنے کی اجازت دے دی جائے تو اس کے ذریعے معاملات حل ہو سکتے ہیں۔

پھر ایران کی جانب سے بعض رکاوٹیں موجود ہیں، نان ٹیرف رکاوٹیں بہت زیادہ ہیں، کوئٹہ قونصلیٹ ایک اٹیسٹیشن کا ایک لاکھ روپیہ وصول کرتا ہے، جو ہم نہیں لیتے، اسی طرح روڈ ٹیکس ایران کی طرف سے لگایا جاتا ہے، وہ بھی ہم نہیں لیتے۔ 

ہم نے حالیہ مذاکرات کے دوران دو ڈرافت فائنل کئے ہیں جن پی ایس کیو سی اور ایران کی آئی ایس آر آئی اسری کے درمیان معاہدہ کرایا گیا ہے کہ ہم آپ کے معیارات کو تسلیم کرتے ہیں آپ اسی طرح ہمارے معیارات کو تسلیم کریں۔ 

جولائی میں ہونے والی ایف ٹی اے میٹنگ میں ایرانی وفد کی تیاری نہیں تھی تاہم تومبر میں انہوں نے ہمیں حیران کر دیا۔ ایف ٹی اے پر آئندہ میٹنگ اپریل میں ہوگی اور امید کی جارہی ہے کہ ایف ٹی اے طے پا جائے گا۔

اہم ترین انٹرویو خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری