صدی کی سب سے بڑی ڈیل کیا ہے؟ - (حصہ اول)


صدی کی سب سے بڑی ڈیل کیا ہے؟ - (حصہ اول)

صدی کی سب سے بڑی ڈیل در حقیقت مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے ایک نیا نقطہ نظرہے جسے امریکی صدر ٹرمپ نے پیش کیا ہے اور اس نقطہ نظر کو امریکی اتحادی عرب ممالک کی مدد و تعاون حاصل ہے۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: امریکہ میں ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے ہی ’’صدی کی سب سے بڑی ڈیل‘‘ کی اصطلاح سیاسی میدان اور ذرائع ابلاغ میں مشہور ہوئی۔

اس نقطہ نظر کو لیکر آگے بڑھنے میں مرکزی کردار ٹرمپ کے صیہونی داماد اور ایڈوائزر جیرڈ کوشنر Jared Kouchner کا ہے، اس پلان میں چند محدود افراد ہی شامل ہیں کہ جن میں سے ایک اور فرد مشرق وسطی میں امن عمل کے لیے امریکی ایلچی جیسن گرین بلاٹ بھی شامل ہے۔

جیسن گرین بلاٹ عقیدے کے اعتبار سے ارتھوڈوکس یہودی کہلاتاہے کہ جن کے عرصہ دراز سے ٹرمپ کے ساتھ گہرے تعلقات چلے آرہے ہیں دونوں میں قدر مشترکہ پراپرٹی کا کاروبار رہا ہے۔

ٹرمپ کے داماد جیرڈ کوشنر نے اس ڈیل کی خاطر مختلف ممالک کے دورے مکمل کرلئے ہیں کہ جن میں سعودی عرب، مصر اور اسرائیل شامل ہیں۔
تو آخر یہ ڈیل ہے کیا ؟ اس کے خدوخال کیا ہیں ؟

الف: گرچہ اس ڈیل کے بارے میں رسمی طور پر کسی قسم کی کوئی تفصیلات سامنے نہیں آئیں لیکن اس کے باوجود وقتا فوقتا لیک ہونے والی خبروں نے اس کے خدو خال بہت حد تک واضح کردئے ہیں۔

واضح رہے کہ یہ لیکس مختلف ممالک کے ذمہ داروں کےساتھ ہونے والی گفت و شنید سے سامنے آئی ہے اور ہوسکتا ہے کہ اسے جان بوجھ کر لیک کیا گیا ہو تاکہ ماحول کو سازگار بنایا جاسکے۔

ب: امریکہ کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اس ڈیل کے بارے میں اس سال کے وسط میں یعنی جون یا جولائی کے مہینے میں اس ڈیل کے بارے میں اعلان کرینگے۔

ج: اس ڈیل میں فلسطین اور اسرائیل سے جڑے تمام معاملات بشمول القدس اور فلسطینی مہاجرین کی واپسی جیسے سارے امور شامل ہونگے اور اسے خلیجی عرب ممالک کی مالی و سیاسی حمایت حاصل ہوگی۔

ہم ذیل میں اس ممکنہ ڈیل کے چند ان نکات کو بیان کرتے ہیں کہ جسے دنیا کے معتبر سمجھے جانے والے ذرائع ابلاغ نے اپنے قابل بھروسہ ذرائع سے نقل کئے ہیں۔

1: القدس کو بعنوان اسرائیلی دارالحکومت قبول کیا جائے گا اور کسی بھی اسرائیلی حکومت کو یہ حق نہیں ہوگا کہ وہ اس مسئلے کے بارے میں مستقبل میں کسی قسم کی گفتگو کرے۔ 

2: القدس سے تقریبا چھ کلومیٹر کے فاصلے پر مضافاتی علاقے میں فلسطین کا دارالحکومت قائم کیا جائے گا۔ 

3: فلسطین بعنوان ملک کے غزہ پٹی کے کچھ علاقوں اور ویسٹ بنک کے کچھ حصوں پر مشتمل ہوگا۔ 

4: ٹرمپ کی جانب سے دونوں ملکوں کی مشترکہ سلامتی و سیکورٹی کے پلان کا اعلان ہوگا۔ 

5: غزہ میں اسلامی تحریک مزاحمت کو ہر قسم کے ہتھیار سے خود کو خالی کرنا ہوگا۔ 

6: سیکورٹی مسائل میں اسرائیل کی پوزیشن کو بالادستی حاصل ہوگی یعنی وہ overriding security responsibility رکھے گا۔ 

7: دنیا کے تمام ممالک جنہوں نے اب تک اسرائیل کو قبول نہیں کیا ہے انہیں اسرائیل کو ایک قانونی ملک کے طور پر قبول کرنا ہوگا۔ 

8: تمام مذاہب کے افراد کے لئے فلسطینی مقدس مقامات میں عبادت کی ضمانت اسرائیل کی جانب سے ہوگی لیکن ا س کی پوزیشن یہاں ایک status quo کی ہوگی۔ 

9: مقبوضہ فلسطین میں موجود پورٹس بشمول اسدود اور حیفا پورٹ سمیت بعض ایئرپورٹس سے فلسطینی بھی استفادہ کرسکیں گے۔

10: غزہ پٹی اور ویسٹ بنک یا ضفۃ غربی کے درمیان ایک پرامن گذرگاہ قائم ہوگی۔ 

11: فلسطینی مہاجرین کی واپسی کے بارے میں مزید غوروخوص کیا جائے گا اور ان کے مسئلے کا ایک منصفانہ حل نکالا جائے گا۔

کہا جارہا ہے کہ انہیں اردن اور مصر کے صحرائی حصوں میں آباد کرنے کا پلان موجود ہے۔ 

ان تمام شقوں کوپڑھنے کے بعد اس کا جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ اسرائیل اپنے غاصبانہ قبضے کی رسید خود فلسطینوں اور پوری دنیا سے حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ آیندہ کوئی بھی اس موضوع پر بات ہی نہ کرسکے اور نہ کوئی اسرائیل کو غاصب اور قابض کہہ سکے۔

بشکریہ:Focus on West & South Asia - URDU

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری