داعش کا خراسان پروجیکٹ اور پاکستان کے لئے منڈلاتے خطرات


داعش کا خراسان پروجیکٹ اور پاکستان کے لئے منڈلاتے خطرات

افغانستان میں داعش نے اپنے ناجائز وجود کا اعلان 2015ء میں کیا تھا اور یہ وہی سال تھا کہ جس وقت عراق و شام میں اس کے داعشی مراکز کی جانب سے اعلان ہوا تھا کہ وہ پاکستان اور افغانستان میں اپنے سلیپر سیلز کو متحرک کرنے جارہی ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم: افغانستان میں داعش یعنی دولت اسلامیہ خراسان نے اپنے وحشیانہ وجود کا اعلان سن 2015میں کیا تھا اور یہ وہی سال تھا کہ جس وقت عراق و شام میں اس کے داعشی مراکز کی جانب سے اعلان ہواتھا کہ وہ پاکستان اور افغانستان میں اپنے سلیپر سیلز کو متحرک کرنے جارہی ہے۔

اس اعلان کے بعد کچھ ہی عرصے میں داعش کی فعالیات کو ان دونوں ملکوں میں دیکھا جاسکتا ہے لیکن پاکستان میں دہشتگردی کیخلاف لانچ کئے گئے آپریشن کے سبب داعش کسی بڑے اقدام میں ناکام رہی لیکن افغانستان میں پاکستان کے قبائلی علاقے پاراچنار کرم ایجنسی سے بالکل قریب کے علاقے ننگرھار کو اپنا مرکز بنالیا۔

افغانستان میں تشکیل پانے والی داعش کے دہشتگردوں کا تعلق ابتدائی طور پر افغانستان اور پاکستان میں موجود دہشتگردوں کے مختلف گروہوں سے عبارت تھی لیکن اب ان کی صفوں میں بڑی تعداد میں غیر ملکیوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔

فرانس کے ریڈیو چینل کے مطابق یہاں فرانسیسی نژاد الجزائری، مراکشی، تیونسی، لیبیائی سے لیکر وسطی ایشیا کی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے دہشتگردوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔

دوسری جانب پاکستان میں لانچ شدہ کامیاب آپریشن کے سبب بہت سے گروہوں نے بھی داعش کا رخ کیا ہے جن میں دہشتگردی کی دنیا میں طویل تاریخ و تجربہ رکھنے والے بہت سے چھوٹے بڑے گروہ شامل ہیں۔

عالمی حالات پر مطالعات رکھنے والے افغان پیس انسٹیٹیوٹ کے مطابق پاکستان سے جن شدت پسند گروپوں نے افغانستان میں داعش میں شمولیت اختیار کی ہے ان میں قدرے پڑھے لکھے شمار ہونے والے گروہ جیش محمد اور لشکر طیبہ، لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان پاکستان بھی شامل ہیں۔

خطرناک پہلو یہ ہے کہ ان گروہوں میں ایک بڑی تعداد اب داعشی دہشتگردوں کی شامل ہوئی ہے جو عراق و شام میں شکست کھانے کے بعد افغانستان کا رخ کررہے ہیں اور انہیں بہت سی قوتیں پورے اہتمام کے ساتھ شام و عراق سے ریسکیو کرکے یہاں پہنچنے میں مدد فراہم کررہی ہیں۔

یوں کہا جاسکتا ہے کہ افغانستان میں داعش دہشتگرد گروہ ان تمام شدت پسندوں کے لئے ایک ایسا گراونڈ بن چکا ہے جنہوں نے دوسرے گروہوں سے علحیدگی اختیار کی ہوئی ہے۔

افغانستان میں داعش کی فعالیات کا اصلی مرکز ننگرھار ہے لیکن اس کے علاوہ بھی وہ مختلف علاقوں میں فعال دکھائی دیتے ہیں جیسے جنوبی افغانستان میں ہلمند، زابل، فراہ اسی طرح جوزان اور فاریاب میں ان کی سرگرمیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔

اگر ہم بغور افغانستان میں داعش کے جغرافیہ کو دیکھیں تو یہ بات واضح ہے کہ وہ تاجکستان کے راستے وسط ایشیائی ریاستوں اور اسی طرح ننگرھار یعنی اصلی مرکز کے ذریعے پاکستان کو نشانہ بناسکتے ہیں۔

تو کیا مغربی ایشیا یا مشرق وسطی کی حکمت عملی کو اب اس خطے کے لئے ترتیب دی جارہی ہے؟

ماہرین کہتے ہیں کہ ISIS کے بعد اب ISK کا ورژن روس چین، پاکستان اور ایران کو نشانہ بنانا چاہتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ روس، چین اور امریکہ کے درمیان جاری کشمکش تو دوسری جانب ایک بڑی اور پہلی مسلم ایٹمی قوت کے طور پر پاکستان داعش خراسان پروجیکٹ کا پہلا ہدف ہے۔

پاکستان اس وقت ہر گزرتے دن چین اور روس کے قریب ہوتا جارہا ہے اور چین اور پاکستان دنیا کی معیشت میں ہل چل ایجاد کرنے والے ایک زبردست پروجیکٹ سی پیک یا قدیم شاہراہ ریشم کو فعال کرنے میں لگے ہوئے ہیں جبکہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات پہلے جیسے نہیں رہے اور نہ ہی رہ سکتے ہیں۔

پاکستان کے لئے چین اور روس کی قربت امریکیوں کی نسبت انتہائی مفید واقع ہوسکتی ہے لیکن بحیثیت ملک پاکستان کو اس شفٹنگ کے عمل سے گزرتے ہوئے کچھ تکلیفیں سہنی ہونگیں۔

ہمیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ افغانستان میں داعش کا وجود صرف شدت پسندوں کے درمیان موجود آئیڈیالوجکل مشترکات کے سبب یا پھر داعش کی جانب ان کی ذاتی توجہ کے سبب نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا پلان اور ایک پروجیکٹ ہے جو اس وقت افغانستان میں تیار کیا جاچکا ہے۔

اس پروجیکٹ کے پچھے وہی قوتیں ہیں جو نئے مشر ق وسطی کی تشکیل کے لئے کبھی جمہوریت پھیلاو کے نام پر "تخلیقی افراتفری" کو انجام دے رہے تھے تو کبھی "دولت اسلامیہ" کے نام پر دہشتگردی کے سونامی کو لانچ کررہے تھے لیکن انہیں بری طرح وہاں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ اہے۔

افغانستان میں بین الاقوامی امور کے ماہر پیر محمد ملازھی کا کہنا ہے کہ "حقیقت یہ ہے کہ کم از کم روسیوں کو لگتا ہے کہ امریک شمالی افغانستان میں داعش کی منتقلی کررہے ہیں، امریکی مستقبل میں روس اور چین کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔"

وہ مزید لکھتا ہے کہ "ہمارے لوکل ذرائع نے بھی روس کی اس بات کی ایک حدتک تائید کی ہے کہ داعش کی نقل و حمل میں امریکیوں کا ہاتھ دکھائی دیتا ہے، یہ بات بھی سچ ہے کہ داعش میں یہ مادہ موجود ہے کہ وہ امریکیوں کے ساتھ تعاون کریں اور امریکی بھی داعش کے ساتھ مل کر چین اور روس کیخلاف مشترکہ اہداف کے حصول میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔"

ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ اس سے پہلے القاعدہ بھی سوویت یونین کیخلاف امریکہ کے ساتھ تعاون کرچکی ہے اور طالبان کو امریکیوں کی ضرورت کے مطابق تشکیل دیا گیا تھا۔

حال ہی میں پاکستان میں انگریزی زبان کے ایک اخبار نے پاکستان کے ایک دوست ملک کے حوالے سے یہ خبر نشر کردی تھی کہ دوست ملک نے پاکستان کو ہشیار کیا ہے کہ داعش کا افغانی ورژن پاکستان کیخلاف استعمال ہونے جارہا ہے اور اس سلسلے میں ان کے پاس مصدقہ اطلاعات موجود ہیں، اسی اثنا میں یہ خبریں بھی ایرانی میڈیا میں دکھائی دے رہی تھیں کہ ایرانی مسلح افواج کے چیف آف سٹاف میجر جنرل محمد باقری جلد ہی پاکستان کا دورہ کرنے جارہے ہیں۔

جاری ہے ۔۔۔

بشکریہ: Focus on West & South Asia - URDU

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری