داعش پروجیکٹ ابھی ختم نہیں ہونے والا؛ داعش کی شفٹنگ، افغانستان صرف لانچنگ پیڈ


داعش پروجیکٹ ابھی ختم نہیں ہونے والا؛ داعش کی شفٹنگ، افغانستان صرف لانچنگ پیڈ

عالمی سطح پر سلامتی وسیکوریٹی کے حالیہ بدلتے حالات کے مطابق سیاست کے رخ کا مطالعہ کرنا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق اس وقت امریکہ مسلسل ناکامی کے سبب اپنی ساکھ کھوتا جارہا ہے تو چین ایک نئی طاقت بن کر ابھر رہا ہےاور روس ایک نئے عزم کے ساتھ سامنے آرہا ہے۔

امریکی سامراج کوئی قدیم سلطنت اورسپر پاور نہیںاور نہ ہی وہ اپنے اندر کسی قسم کی کوئی عظیم تاریخ،ثقافت یا تہذیب رکھتا ہے۔

سوویت یونین کے انہدام کے بعد عمومی طور پر تاثر یہ ابھرا کہ اب امریکہ ہی واحد طاقت ہے جس کا کوئی ثانی نہیں۔

لیکن آج امریکی سیاسی و اقتصادی اجارہ داری اتنی حاوی اور طاقتورنہیں رہی ہے کہ اس عالمی تسلط کو قائم رکھ سکے۔

اگر ہم آج کے امریکہ کی معیشت، سماجیات، عسکری اورسفارتی اثر رسوخ کی قوت کاجائزہ لیں توہمیں واضح طور پر یہ روبہ زوال ہوتے ہوئے محسوس ہوتی ہے۔

حال ہی میں مغربی ایشیا میںاس کی تخلیقی افراتفری کے پروجیکٹ یک بعد دیگر بری طرح ناکامی کے شکار ہیں تو وہ اس عالمی فورمز کہ جسے ہمیشہ اپنے اہداف کے لئے ایک ٹول بنا کر استعمال کرتا آیا ہے۔ اس کی جارہ داری بہت حدتک کم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔

سیکورٹی کونسل سے لیکر اقوام متحدہ تک میں کئی باراسے شکست کا سامنا رہا ہے جبکہ ٹرمپ کی جانب سے پیدا کردہ کنفیوژ صورتحال مزید اس کی ساکھ کو دھچکے پہنچارہی ہے۔

ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے بعد جس طرح کے غیر متوقع ردعمل کا اسے یورپ و دیگر ممالک سے سامنا کرنا پڑ اہے وہ اس کی تاریخ کا ایک سبق آموز صفحہ ہے۔

ایسے میں امریکہ چین کے آگے بند باندھنے کی کوشش میں دیکھائی دیتا ہے۔

دنیا بھر میں پھیلی ہوئی امریکی فوجی مومنٹ کے نقشے کو اگر بغور دیکھاجائے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ مغربی ایشیا کے علاوہ امریکی فوج کی زیادہ تعداد چین کے مشرق یا پھر روس کے مغرب میں دیکھائی دیتی ہے۔

چین کا ایشیا پر فوکس کا اعلان اور روس سمیت بہت سے دوسرے ممالک کی ایشیا کی بڑی اور وسیع مارکیٹ کی جانب توجہ ایشیا کے مستقبل کے حالات کے خطوط کو واضح کرتی ہے۔

امریکہ کا پاکستا ن کو خطرہ جبکہ بھارت کو فرصت اور موقع کے طور پر پیش کرنا اور ایشیا میں چین کے مقابل بھارتی کردار کے خطوط کو افغانستان تک کھینچنا مستقبل کے ممکن بحرانوں اور تصادم کی تصویر کو بھی پیش کرتے ہیں۔

یہ بات اب واضح ہوتی جارہی ہے کہ افغانستان میں بھارت کی غیر معمولی دلچسپی صرف مارکیٹ تک رسائی نہیں بلکہ افغانستان اس کے لئے وہ لانچنگ پیڈ ہے جہاں سے وہ پاکستان کیخلاف اپنے تخریبی منصوبوں کو لانچ کرتا ہے۔

داعش کی شفٹنگ کے اہداف

سابق افغان صدر حامد کرزئی نے کہا تھاکہ پہلے افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے ارکان زیادہ تھے لیکن اب داعش سے تعلق رکھنے والے افراد سب سے زیادہ ہیں، ہمیں حق پہنچتا ہے کہ ہم امریکا سے سوال پوچھیں کہ امریکی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی کڑی نگرانی اور موجودگی کے باوجود داعش نے کس طرح افغانستان میں اپنی جڑیں مضبوط کیں۔

حامد کرزئی نے کہا کہ انہیں شک سے بھی زیادہ یقین ہے کہ داعش کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے اسلحہ پہنچایا جاتا ہے اور یہ صرف ملک کے ایک حصے میں نہیں بلکہ کئی حصوں میں ہو رہا ہے۔

داعش کو اسلحہ کی فراہمی کی خبریں افغان شہری ہی نہیں بلکہ حکومت میں موجود افراد اور دیہات میں رہنے والے لوگ بھی دے رہے ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق داعش شدت پسندوں کو شام کے شہر رقہ میں شکست کے بعد نکلنے کے لئے محفوظ راستہ فراہم کیا گیا تھا اور یہ راستہ کسی اور نے نہیں بلکہ امریکہ اور اس کے حمایتی شام ڈیموکریٹک گروپ نے فراہم کیا تھا۔

اس رپورٹ کے مطابق تقریبا ڈھائی سو دہشت گردوں اور ان کے خاندانوں کے تقریباًساڑھے تین ہزار افراد کو ایک معاہدے کے تحت رقہ سے شام، ترکی اور عراق کے مختلف علاقوں میں جانے کی اجازت دی گئی۔

افغانستان کے شمالی علاقوں کا ہی انتخاب کیوں کیا؟

اگر ہم فرض کرتے ہیں کہ اس کا ہدف روس ہے تو یہ ہدف حاصل کرنا اس قدر بھی آسان نہیں کیونکہ روس وہاں سے بہت دور واقع ہے اور درمیان میں کئی دوسرے ممالک آجاتے ہیں۔

زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ داعش کے لانگ ٹرم منصوبوں میں سے ایک روس کو نشانہ بنانا ہے جس کے لئے انہیں پہلے روس کے اطراف افراتفری پھیلانی ہوگی۔

بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں داعش کی سرگرمیوں کا ایک اور مقصد خراسان پر قابض ہونا ہوسکتا ہے ، جس کا تعلق آخرالزمان کے عقیدے سے ہے۔

واضح رہے کہ قدیم خراسان افغانستان اور ایران کے کچھ حصوں سے مل کر مکمل ہوتا ہے۔

داعش کی فرقہ وارانہ سوچ کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض کا خیال ہے کہ افغانستان میں سر گرمیوں کا ایک مقصد افغانی شیعہ اور پاکستان اور ایران کو نشانہ بنانا ہے اور خاص کر کہ پاکستان کا صوبہ بلوچستان اس کا اصل ٹارگٹ ہے جیساکہ بلوچستان میں جاری دہشتگردانہ کاروائیوں کی شرح بھی اس کو کافی حد تک بیان کرتی ہے۔

بلوچستان میں داعش کے حمایتوں کی موجودگی بھی اسے مدد فراہم کرسکتی ہے۔

پاکستان کی جانب سے حال ہی میں داعش کو قومی سلامتی کے لئے خطرہ کے طور پر اعلان کرنا بڑھتے ان حقیقی خطرات کو مزید گہرے اور واضح کرتا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان ایک دیڑھ دوسال پہلے تک داعش کے وجود اور خطرات سے مسلسل انکار کرتا آیا ہے جبکہ ماہرین اور میڈیا مسلسل داعش کے خطرے کے بارے میں کہتے رہے ہیں۔

دوران داعش نے نہ صرف اپنے سلیپر سلیز بنا ئے تھے بلکہ یونیورسٹی کے طالب علموں اور پیشہ ور افرادتک کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔

بطور مثال سعد عزیزنامی داعشی کا طاہر سایئں گروپ جو کہ سماجی کارکن سبین محمود کے قتل اور2015کےکراچی میں سفورہ گوٹھ بس حملے میں ملوث تھا، یونیورسٹی کے پڑھے لکھے ان لوگوں پر مشتمل تھا جس عرف عام میں مڈل اور اپر مڈل کلاس کہا جاتا ہے ۔ ماضی میں نوجوانوں کوپر تشدد اور بنیاد پرست تنظیموں میں بھرتی کرنے کا کامخصوص مذہبی روحجانات انتہا پسندمُلا کیا کرتے تھےایسے مُلا جہادکے نام پر بنی شدت پسند تنظیموں شدت پسند سوچ افراد کے بیچ رابطے کروایا کرتے تھے۔

جبکہ اب یہ کام سوشل میڈیا پلیٹ فارم سرانجام دے رہا ہے۔

داعش نے پاکستان میںنوجوان اور جوان لڑکیوں اور عورتوں کو بھی بھرتی کرنے میں کامیاب رہی ہے جس کی مثال بشریٰ چیمہ ہےکہ جس نے جامعہ پنجاب سے اسلامیات میں ایم-فل کی ڈگری حاصل کی تھی اور وہ مذہبی سکالر بھی تھی،انہوں نے لاہور میں بشریٰ نیٹ ورک چلایا اور وہاں سے شدت پسندوںبھرتی کر کے شام بھیجے۔ اسی طرح 2014 میں کراچی میں داعش کا حمایت یافتہ خواتین کا ایک مکمل گروہ پکڑا گیاجس کا کام داعش کے لئے چندہ اکھٹا کرنا اور نظریات پھیلانا تھا۔

حیدر آباد سےداعش کی ممبر میڈیکل کی طالبہ نورین لغاری لاہور میں ایسٹر تہوار پر خود کش بمبار کے طور پر دھماکہ کرنا چاہتی تھی۔

دارالحکومت اسلام آباد کی شدت پسندی کے میدان میں بدنام زمانہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی لڑکیوں کی جانب سے بہ بانگ دھل داعش کے سرغنہ ابوبکر البغدادی کے نام بیعت کا وڈیو پیغام نشر کیا گیا۔

اس قسم کے واقعات کے بعد ا ب اگر ذمہ داروں کی جانب سے داعش کو سب سے بڑا خطرہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے تو یہ ایک انتہائی مثبت قدم ہے۔

لیکن ظاہر ہے کہ اب یہ خطرہ اندر سے زیادہ سرحدکی دوسری جانب افغانستان سے ایک منظم یلغار کی شکل میں ہی ہوسکتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ شمالی افغانستان میں داعش کو لانچ کرنے والوں کا مقصد اس علاقے میں موجود وہ پوشیدہ قدرتی زخائر ہیں اس کا اخراج اب تک ہو نہیں پایا ہے۔

افغانستان کے شمالی علاقے مہنگی دھاتوں اور قیمتی ذخائر سے مالامال بتائے جاتے ہیں۔

عراق اور شام میں بھی داعش کو ترجیحی طور پر ان علاقوں کو نشانہ بنانے کے پچھے لگایا گیا تھا جہاں تیل کے زخائر تھے اور داعش نے اربوں کا تیل بلیک مارکیٹ میں فروخت کیا کہ جس کا سب سے بڑا خریدار ترکی تھا۔

افغانستان میں داعش کی تیز رفتاری بتارہی ہے کہ منصوبہ ساز جلدی میں ہیں اور وہ جلد از جلد کچھ کرگذرنے کے پچھے لگے ہوئے ہیں۔

داعش کی عراق میں ایک قابل ملاحضہ حصےپر قبضے کی کامیابی کی ایک وجہ کمزور عراقی فوج تھی جبکہ شام میں اندورنی طور پر حالات اس قدر بگاڑے گئے تھے کہ داعش کو کچھ علاقوں میں پاوں گاڑنے کی جگہ ملی لیکن یہاں بھی داعش کی شکست کا اصل سبب شام کی مضبوط آرمی اور اس کی اتحادی فورسز بنیں۔

پاک آرمی ایک مضبوط آرمی ہے اور اس کا ایک وسیع تجربہ ہے لہذایقین سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ افغانستان میں موجود داعش پاکستان کے کسی علاقے پر اس قدر آسانی کے ساتھ قبضہ نہیں کرسکتی لیکن اس کے باوجود افغان سرحد کے ساتھ متصل علاقوں میں موجود بے چینی اور شدت پسندی کے روحجانات خطرات کو بڑھوا دیتے ہیں تو دوسری جانب داعش پروجیکٹ منصوبہ سازوں کے عزائم ان خطرات میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔

ہمیں یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ داعش پروجیکٹ پر گھربوں ڈالر خرچ کئے گئے ہیں اور جارہے ہیں لہذا ایسے میں منصوبہ ساز اتنی آسانی کے ساتھ اس پروجیکٹ کو ختم نہیں کرنے والے۔

بشکریہ: میڈل ایسٹ فوکس

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری