پاکستانی روپیہ کے مقابلے میں ایرانی تومان کی قدر میں 2 ماہ کے اندر اندر 70 فیصد کی کمی


پاکستانی روپیہ کے مقابلے میں ایرانی تومان کی قدر میں 2 ماہ کے اندر اندر 70 فیصد کی کمی

اگرچہ پاک ایران تجارت کے حجم میں اضافے کے حوالے سے ماضی میں بھی گوناگوں مشکلات موجود تھیں تاہم ایرانی تومان کی قدر میں حالیہ کمی نے دونوں ملکوں کے تاجر برادری کو بے پناہ مشکلات سے دچار کیا ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق ڈالر سمیت دیگر عالمی کرنسی کی ایرانی تومان کی نسبت اضافے کا رجحان کوئی نئی بات نہیں تاہم گزشتہ دو ماہ کے دوران اس رجحان نے ایسی شدت اختیار کی ہے کہ جس کے سبب اقتصاد سے ہمدردی رکھنے والوں کو شدید خدشات لاحق ہوئے ہیں۔

نو ہزار کلومیٹر سے زائد مشترکہ سرحد رکھنے والے ایران اور پاکستان کی کوشش تھی کہ باہمی تجارت کے حجم کو 5 اربڈالر تک پہنچائیں جن کو اب نہایت سخت چیلنج کا سامنا کرنا پڑگیا ہے۔

گزشتہ دو ماہ قبل ایک روپیہ کے مقابلے میں ایرانی تومان کی قیمت 35 تومان تھی لیکن ایران کی اندرونی اقتصادی صورتحال اس قدر گرگئی کہ اب ہر ایک پاکستانی روپیہ کی قیمت ساٹھ تومان کے برابر ہوگئی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اب تاجر برادری تومان میں معاملات نمٹانے کیلئے آمادہ نہیں ہے حتی اب ایرانی تاجر بھی اپنی مصنوعات کی فروخت کیلئے پاکستانی روپیہ کا تقاضا کررہے ہیں جس کے سبب ایران کی مارکیٹ میں اب پاکستانی روپیہ بہت کم ملتا ہے۔

ایک اور سنجیدہ مسئلہ پاکستانی زائرین کیلئے پیش آیا ہے جن کیلئے زیارات مقدسہ جانا محال ہوگیا ہے کیونکہ بعض مفادپرست افراد زائرین سے روپیہ لینے کے درپے ہیں، دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب ایران میں ہوٹل مالکان اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے جن کا براہ راست زائرین کیساتھ ربط ہے، کی یہ کوشش ہے کہ وہ زائرین سے روپیہ حاصل کریں اور وہ بھی دو ماہ قبل کرنسی کے حساب سے، اور اس طریقے سے اب خود ایرانی اپنے ملک کی اندرونی معیشت کو برباد کرنے میں مصروف ہیں۔

اس کے علاوہ ایک اور خبر یہ ہے کہ ایرانی تومان کی قدر میں کمی کے سبب اسمگلنگ میں بھی اضافہ ہوگیا ہے کیونکہ اکثر تاجر روپیہ میں ٹیکس دینے کیلئے تیار نہیں اور ترجیح دیتے ہیں کہ اسمگلنگ جیسے خطرناک راستے کو اپنی آمدنی میں اضافے کیلئے منتخب کریں۔

دوسری جانب چاول، انواع و اقسام کے میوے اور چمڑہ وغیرہ کہ جو پاکستان سے ایران برآمد کئے جاتے ہیں، ایرانی کرنسی کے غیرمستحکم ہونے کا سبب بنے ہیں اور عام عوام کیلئے زندگی گزارنا مشکل ہوگیا ہے۔ 

ایک اور نہایت اہمیت کا حامل موضوع یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین حوالہ ہنڈی کے کاروبار کرنے والوں کو بھی گوناگوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ اس سے قبل جو کمپنیاں اور تجار ہنڈی حوالہ کے ذریعے رقم کی ترسیل کیا کرتے تھے اب اس حوالے سے اپنی رقم کی ترسیل کرنے سے کتراتے ہیں اور مناسب موقع پاتے ہی اپنی رقوم کو ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل کرنے کے انتظار میں ہیں۔

واضح رہے کہ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ کی قدر بھی کم ہوگئی ہے تاہم ایرانی تومان کی روپیہ کے مقابلے میں کمی کا رجحان ہنوز جاری ہے۔

اہم ترین ایران خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری