پاک ایران کا فطری اتحاد ایران کے بھارت اور پاکستان کے امریکہ یا سعودیہ کیساتھ اتحاد سے زیادہ مضبوط


پاک ایران کا فطری اتحاد ایران کے بھارت اور پاکستان کے امریکہ یا سعودیہ کیساتھ اتحاد سے زیادہ مضبوط

افغانستان میں موجود داعش کاخطرہ اور خطے کے بارے میں عالمی قوتوں کی پالیسی کے خطرات سے نپٹنےکے لئے پاک ایران میں جس قدر فطری اتحاد دکھائی دیتا ہے وہ نہ تو ایران اور بھارت میں اور نہ ہی پاکستان اور امریکہ یا سعودی عرب میں دکھائی دیتا ہے لہذا کہا جاسکتا ہے کہ دونوں ملکوں میں عسکری اور سیکورٹی تعاون میں غیر معمولی اضافہ اس بات کا عکاس ہے۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: ماہ رواں کے وسط میں ایرانی اعلی سطحی ایک عسکری وفد نے 20سال بعد پاکستان کا دورہ کیاتھا وفد نے اس دورے میں پاکستان کی اعلی عسکری قیادت اور صدر مملکت سے ملاقات کی تھی۔ اس دورے میں وفد نے خیبر پختونخواہ کے ان قبائلی علاقوں کا بھی دورہ کیا جہاں پاک فوج کی جانب سے دہشتگردوں کے ٹھکانوں کیخلاف اہم آپریشنز کئے تھے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ 20سال بعد ہونے والا ایرانی عسکری اعلی سطحی وفد کایہ دورہ ایک غیر معمولی دورہ ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باوجوہ نے ایران کا دورہ کیا تھا اور اس دورے کے دوران انہوں نے ایرانی وفد کو پاکستان دورے کی دعوت دی تھی۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں پنجے گاڑھتی داعش کیخلاف پاک چین ایران روس اتحاد بننے کے بعد دونوں ہمسائیہ ملکوں کے درمیان اعلی عسکری وفود کا تبادلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

پاکستان اور ایران کے درمیان سیکورٹی تعاون میں مسلسل اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے رواں سال میں متعدد بار طرفین میں عسکری وفود کا تبادلہ دیکھنے میں آیا ہے۔

اسی سال مئی کے مہینے میں ایک انگلش اخبار اور بعض عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایران نے پاکستان کے ساتھ ایک خفیہ اطلاع شئیر کی تھی کہ جس کے مطابق داعش اور اس کے سربراہ ابوبکر البغدای کو امریکی تعاون سے افغانستان میں شفٹ کیا جاچکا ہے۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق افغانستان میں داعش کی موجودگی کا اصل ہدف پاکستان اور پھر ایران ہیں اسی دوران اس خبر کے نشر ہونے کے بعد پاکستان میں موجود تاجکستان کے سفیر نے بھی خطے میں داعش کے پھیلاو پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔

مغربی ایشیا کے ذرائع ابلاغ کا ایک حصہ دو ہمسائیہ ممالک پاکستان اور ایران کے ان تعلقات کو سیکورٹی اور آنے والے ان خطرات کو قرار دیتا ہے کہ جس کایہ دو ہمسائیہ ممالک اس وقت سامنا کررہے ہیں۔

الف: علاقائی صورتحال اور ایشیا کے بارے میں عالمی قوتوں کی بدلتی پالیسی کو لیکر اگر دیکھا جائے تو داعش کی افغانستان میں موجودگی کا خطرہ دونوں ملکوں کے لئے ہے۔  ہو سکتا ہے کہ خطرے کے حجم میں کچھ فرق ہو۔

افغانستان میں موجود داعش کاخطرہ اور خطے کے بارے میں عالمی قوتوں کی پالیسی کے خطرات سے نپٹنےکے لئے دونوں ممالک میں جس قدر فطری اتحاد دکھائی دیتا ہے وہ نہ تو ایران اور بھارت میں اور نہ ہی پاکستان اور امریکہ یا سعودی عرب میں دکھائی دیتا ہے۔

لہذا کہا جاسکتا ہے کہ دونوں ملکوں میں عسکری اور سیکورٹی تعاون میں غیر معمولی اضافہ اس بات کا عکاس ہے۔

البتہ ہم یہاں عالمی اور علاقائی سیاسی و اقتصادی مجموعی صورتحال اور ضرورتوں سے بھی کسی طور پر انکار نہیں کرسکتے۔

ب: عالمی ذرائع ابلا غ کے مطابق ایران سمجھتا ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب کی کوشش ہے کہ پاکستان کو ایران کیخلاف ایک لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کیا جائے جیسا ماضی میں سوویت یونین کیخلاف کیا گیا تھا اور جیسا کہ اس وقت بھارت افغانستان کو پاکستان کیخلاف ایک لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش میں دکھائی دیتا ہے۔

فرانسیسی نیوز انٹیلی جنس آن لائن کا کہنا ہے کہ "ایرانی سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور سعودی عرب پاکستان میں ایران کیخلاف ایک آپریشن روم قائم کرنا چاہتے ہیں، جیسا کہ سن 2013 میں اردن کے دارالحکومت عمان میں شام کیخلاف قائم کیا گیا تھا۔"

انٹیلی جنس آن لائن کا مزید کہناہے کہ "اس وقت ان کے ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ امریکہ اور سعودی عرب اس موضوع کو لیکر پاکستان کے ساتھ بات چیت کررہے ہیں اور ایران اس بات کو لیکر تشویش میں ہے کہ یہ آپریشن روم ایران کیخلاف استعمال کیا جائے گا۔"

ج: ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستان کی بدلتی ہوئی پالیسی اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں قائم سردمہری کے سبب پاکستان امریکہ اور سعودی عرب کے اس ڈیمانڈ کو ماننے سے انکار کرچکا ہے۔ 
پاکستان سمجھتا ہے کہ یہ چیز اس کے داخلی امن و سلامتی کیخلاف ہونے کے علاوہ خود اس کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے۔

اس سلسلے میں انٹیلی جنس آن لائن کا مزید کہنا ہے کہ "اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ پاکستان امریکی اور سعودی اس ڈیمانڈ کو پورا کرے گا، امریکہ پاکستان کی مالی امداد میں کمی کرچکا ہے اور ٹر مپ پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے۔

دوسری جانب باوجود اس کے کہ پاکستانی افواج کو سعودی عرب کی مالی امداد حاصل رہتی ہے لیکن پاکستان ثابت کرچکا ہے کہ وہ سعودی عرب کو "نا" کہہ سکتا ہے جیسا کہ اس نے یمن کے ایشو پر کیا۔

فرانسیسی نیوز انٹیلی جنس آن لائن کا مزید کہنا ہے کہ "امریکہ اور سعودی عرب کے پاس ایران کے سیستان اور بلوچستان میں کسی بھی قسم کی کاروائی کے لئے اُس وقت اچھا موقع تھا کہ جس وقت پاکستان میں نوازشریف برسر اقتدار تھا۔"

مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لئے اس وقت افغانستان بنیادی ایشو ہے اور جب تک یہ ایشو حل نہیں ہوتا تب تک پاکستان کسی بھی قسم کا رسک لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

ہمارے خیال میں پاکستان کی خارجہ پالیسی میں واضح طور پر ایک قسم کی شفٹنگ کی کوشش دکھائی دے رہی ہے جو خطے اور اندرونی حالات کے سبب انتہائی ضروری ہے۔

ظاہر ہے کہ پالیسی کی اس شفٹنگ کا عمل پاکستان کے لئے اس قدر آسان بھی نہیں اور نہ ہی یہ شفٹنگ یکدم سے انجام پاسکتی ہے۔

پاکستان اور ایران کے درمیان عسکری وفود کے تبادلے میں جن موضوعات پر مشترکہ عمل کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے اس میں سب سے نمایاں چیز دونوں ملکوں کی سیکورٹی اور دفاعی تعاون کا موضوع ہے کہ جو کسی نہ کسی طور پر افغانستان کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے۔

ہمسائیہ ممالک ایران اور پاکستان کے تعلقات کو لیکر نوائے وقت اخبار میں چار قسطوں پر مشتمل مضامین لکھنے والے طارق امین کا کہنا ہے کہ "کچھ حقیقتیں بڑی کڑوی ہوتی ہیں لیکن ایک غیرجانبدار تجزیہ نگار کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ اپنے قاری کے لئے وہ لکھے جو سچ ہوتا ہے اور یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ میرے ملک پاکستان کے پالیسی سازوں نے ہمیشہ دوری پر رہنے والوں کیلئے اپنی باہیں دراز کی ہیں جب کہ پڑوسیوں کو ہمیشہ دوری پر ہی رکھا ہے جس کی واضع مثال 1949ء میں ہمسائے میں بیٹھے روس کو چھوڑ کر ہزاروں میل دور بیٹھے امریکہ سے دوستی کی پینگیں بڑھانا ہے"، اس سے آگے راقم کیا کہنا چاہتا ہے آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ 

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہوتے ہیں۔ اصولاً ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ 2000ء کے بعد جب امریکی صدر جارج بش نے ایران کے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہوئے اس پر اقتصادی پابندیاں لگائی تھیں تو اس خطرے سے بے نیاز کہ امریکہ ہمارے بھی خلاف ہو جائے گا، ہمیں ایران کے ساتھ کھڑا ہو جانا چاہئے تھا کیونکہ زمینی حقائق اس وقت امریکہ کو پاکستان سے کسی بھی اختلاف کی اجازت نہیں دے رہے تھے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ شخصی مفادات نے ہمارے اس وقت کے حکمرانوں کی سوچ کو اس قدر بانجھ کر دیا تھا کہ وہ اس خوف سے نکل ہی نہ سکے جبکہ اس کے مقابلے میں ہندوستان نے وقت کا فائدہ اُٹھایا اور وہ ایران کو اپنی قربت میں کھینچ لایا۔

تجزیہ کاروں سمیت اہم سیاسی و غیر سیاسی افراد کا خیال ہے کہ ماضی میں پاکستان کی خارجہ پالیسی مسلسل غیر مستقل مزاجی کا شکار رہی ہے جس کے سبب خارجہ پالیسی کے بنیادی اصول اور اس کے خدوخال ہمیشہ سیاست دانوں کی شخصی ضرورت کے مطابق چلتی رہی ہے جبکہ سیاست دان خارجہ پالیسی میں اداروں کی مداخلت یا مرضی کو مورد الزام ٹھراتے رہے ہیں۔

عالمی ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے سینیٹ کے رکن عثمان کاکڑ کا کہنا تھا کہ "ایران نے پہلے کوشش کی کہ پاکستان ان سے معاملات بہتر کرے جب اسلام آباد نے ایسا نہیں کیا تو اس نے بھی بھارت سے قربت بڑھانا شروع کر دی۔"

افغانستان بھی بھارت کے قریب ہے۔ امریکا بھی ہم سے ناراض ہے۔ یہ پالیسی تباہ کن ہے۔ ہمیں خطے کے ممالک سے تعلقات بہتر کرنے چاہییں ورنہ ہم سفارتی تنہائی کا شکار ہوجائیں گے جس سے ہمارے مسائل مزید بڑھیں گے۔

اس بات میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے کہ افغانستان سمیت ایران کے ساتھ بھارت کے تعلقات کے پچھے ایک مقصد اس ریجن میں پاکستان کو تنہائی کا شکار کرنا ہے لیکن جب سےچین اور روس عالمی منظر پر ابھرنے لگے ہیں جنوبی ایشیاء میں امریکہ کا اثر و رسوخ کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور چین روس پاکستان اور ایران ایک مشترکہ جدوجہد میں جیت گئے ہیں۔

اس بات میں بھی کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری نے ریجن کو متاثر کیا ہے، چین کا معاشی کارڈ جہاں اسے عالمی سطح پر قائدانہ کردار کی جانب بڑھا رہا ہے وہیں پر اس کے لئے چلینجز میں بھی اضافہ کررہا ہے۔ 

چین پاکستان اور ایران دونوں ممالک میں بھاری سرمایہ کاری کررہا ہے لہذا پاکستان اور ایران ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں، کہنے کو تو بھارت بھی افغانستان اور ایران میں سرمایہ کاری کررہا ہےلیکن بھارت کی ایران میں کی جانے والے سرمایہ کاری چینی سرمایہ کاری کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔

پاکستان میں انتخابات کے بعد ممکنہ وزیر اعظم عمران خان کی پہلی وکٹری تقریر اس بات کی عکاس ضرور ہے کہ وہ خطے میں موجود متضاد قوتوں کے درمیان پاکستان کو سینڈوچ بننے نہیں دے گا اور خارجہ پالیسی کو ابن الوقتی کے بجائے مستحکم اصولوں پر گامزن کرے گا کہ جہاں تمام ملکوں کے ساتھ توازن کے ساتھ تعلقات استوار ہوں گے اور حکمرانوں کے ذاتی تعلقات اور مفادات پر ریاستی مفاد غالب رہے گا۔

یہ بات واضح ہے کہ ایران اور پاکستان کا مستقبل اور استحکام ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے لہذا دونوں ہمسائیوں کو تاریخ کے اس اہم دور میں باہمی تعاون میں سچائی اور طرفین کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مشترکہ جدوجہد کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری