اسرائیل بھارت کو ایران مخالف محاذ میں شامل کرنے کے درپے، پاکستان کو کیا کرنا ہوگا؟

اسرائیل بھارت کو ایران مخالف محاذ میں شامل کرنے کے درپے، پاکستان کو کیا کرنا ہوگا؟

اقتصادی میدان میں بھارت اور چین ایران کے خلاف امریکہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کو غیر موثر ثابت کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں تاہم اسرائیل کی کوشش ہے کہ وہ ان دو ملکوں کے ساتھ تعلقات برقرار کر کے ایران کے خلاف محاذ قائم کرے اور اس کے امداد رسانی کے راستے بند کرے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق اسرائیل بھارت کو ایران مخالف محاذ میں شامل کرنے کے درپے تاہم ایسی صورت میں پاکستان کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ اپنے ہمسایہ، دوست اور ثقافتی و مذہبی لحاظ سے قریب ترین ملک ایران کے ساتھ تمام شعبوں میں تعلقات کو اپنے عروج تک پہنچائے۔

بھارت اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں جو پہلے سے زیادہ گہرائی اور گیرائی آ رہی ہے اس کے اسباب و عوامل

اس حوالے سے فلسطین پر گہری نظر رکھنے والے ایران کے معروف اسکالر اور محقق ڈاکٹر سلطان شاہی کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی موجودہ سرکار اپنی بیرونی اسٹریٹجک (Peripheral strategy) کے تحت اس تگ و دو میں ہے کہ علاقے کے غیر عرب ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات قائم کرے، جب اس اسٹریٹجک کا آغاز ہوا تو اسرائیل نے ایران، ترکی، پاکستان یا علاقے کی دیگر اقلیتوں جیسے کردوں اور دروزوں (1) وغیرہ کے ساتھ بھی اپنے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی۔ کردوں کے ساتھ اسرائیل نے تعلقات قائم کئے ایران کے ساتھ تعلقات قائم کئے ترکی کے ساتھ۔ یہ پالیسی در حقیقت بن گورین کی تھی جو انہوں نے اسرائیل کے قیام کے آغاز میں اپنائی یعنی 1960 کی دہائی میں۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اس پالیسی پر عمل درآمد رک گیا چونکہ اس اسٹریٹجک کا اصلی بانی ایران تھا۔ اسرائیل غیر عرب ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کر کے اپنی لابی بنانا چاہتا تھا۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد اس بیرونی اسٹریٹجک کو ایران کے مقابلے میں استعمال کرنا شروع کیا۔ صہیونی ریاست نے ایران کے حامی ملکوں کو اپنی طرف کھینچنے اور ان کے ساتھ تعلقات کرنے کی کوشش شروع کر دی جو ایران کے خلاف امریکی پابندیوں میں اسرائیل و امریکہ کی مدد کر سکتے تھے۔ مثال کے طور پر ایران پر امریکی پابندیوں کے دوران، روس، چین اور ہندوستان تھے جو ایران کی مدد کر رہے تھے اسرائیل کی ہمیشہ سے یہ کوشش تھی کہ وہ ان ملکوں کو اپنے ساتھ جوڑے خاص طور پر اس دور میں جب امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ برسر اقتدار ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ایران کے خلاف دوبارہ پابندیاں عائد کرے اور پہلی پابندیوں کو شدید تر کرے۔ مثال کے طور پر روس کے ایران کے ساتھ تعلقات کافی گہرے ہیں آپ دیکھتے ہیں کہ نیتن یاہو حتی ایک سال میں کئی مرتبہ روس کا چکر لگاتا ہے۔ یہ ایران پر دباؤ ڈالنے کی غرض سے بھی ہے اور اس اثر و رسوخ کی وجہ سے بھی ہے جو ایران روس کے اندر رکھتا ہے۔ اقتصادی میدان میں ہندوستان اور چین ایران کے خلاف امریکہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کو غیر موثر ثابت کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں اسرائیل کوشش کرتا ہے ان دو ملکوں کے ساتھ تعلقات برقرار کر کے ایران کے خلاف محاذ قائم کرے اور ایران کو امداد رسانی کے راستے بند کرے۔ اور نہ صرف ہندوستان بلکہ اسرائیل ان تمام ملکوں کو اپنے ساتھ جوڑنے اور ایران کے خلاف اکسانے کے لیے کوشاں ہے جو ایران کی مدد کر سکتے ہیں۔

دوسرا عامل یہ ہے کہ اسرائیل کی موجودہ سرکار کا پبلیک ڈیموکریسی پہلو بہت مضبوط ہے یعنی اس کے غیر ملکی دورے، لوگوں کے ساتھ روابط، NGO کی سرگرمیاں نیتن یاہو کے دور حکومت میں زیادہ دیکھنے کو ملتی ہیں اگر چہ یہ دائیں بازوں ہیں اور پہلی حکومتوں کی نسبت زیادہ مذہبی ہیں لیکن گزشتہ حکومتوں سے کہیں زیادہ خارجہ پالیسی میں مستحکم ہیں نیتن یاہوعوام سے براہ راست گفتگو کے ذریعے عوام کو اپنی طرف مجذوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں چونکہ نیتن یاہو کا معمول ہے کہ حتی وہ کچھ مہینوں میں ایک بار خود ایران کے عوام سے بھی حکومت ایران کے خلاف اپنے ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہیں جیسا کہ ابھی فٹبال ورڈ کپ کے دوران انہوں نے ایران کے عوام سے براہ راست گفتگو کی۔

ہندوستان ثقافتی میدان میں بھی پورے ایشیا میں ایک موثر کردار ادا کرنے والا ملک ہے۔ ہالی وڈ کے بعد بالیوڈ فلم انڈسٹری، فلم سازی کے میدان میں دوسرے نمبر پر ہے نیتن یاہو اپنے ہندوستان دورے میں بالیوڈ میں جا کر امیتابھ بچن کے ساتھ سیلفی بنواتے ہیں یہ در حقیقت پبلیک ڈیموکریسی میں ایک اہم ثقافتی اقدام ہے یعنی سماجی اور ثقافتی شخصیات کے ساتھ روابط بڑھانا۔ اور اس کا مقصد بھی زیادہ تر یہ ہے کہ اگر وہ کسی اہم شخصیت کے ساتھ اس طرح سے تعلقات قائم کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے وہ عملی طور پر ایران کو صدمہ پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کیا یہ تعلقات صرف ڈپلومیسی اور سفارتکاری کی حد تک ہیں یا اس سے زیادہ گہرے ہیں یعنی کیا یہودیت کا ہندو مذہب کے ساتھ بھی کوئی رشتہ ہے؟

اس سوال کے بارے میں ڈاکٹر سلطان شاہی کا کہنا تھا کہ ہم نے ہندو مذہب اور یہودیت یا صہیونیت کے درمیان پائے جانے والے مشترکات کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں کی لیکن یہ بات واضح ہے کہ ہندوستان کے رہنماؤں جیسے گاندھی جی اور نہرو جی نے کبھی بھی فلسطینیوں کے حقوق کو نظر انداز نہیں کیا اگر چہ انہوں نے اسرائیل کے خلاف بھی کوئی ٹھوس موقف اختیار کیا تھا۔ لیکن اتنا مسلم ہے کہ فلسطینیوں کے حقوق کو انہوں نے پیش نظر رکھا اور اتنی آسانی سے وہ فلسطین پر اسرائیل کی جارحیت و مظالم کو تسلیم نہیں کر سکے۔ غزہ میں جو ظلم و تشدد کا سلسلہ جاری ہے یا لبنان کے خلاف جو اسرائیل نے جارحیت کی ہندوستان نے اسے اسرائیل کا حق تسلیم نہیں کیا اور آج بھی وہ اس فلسطینوں پر ظلم و تشدد کو جائز نہیں سمجھتا۔ لیکن ہندوستان جیسے ایک آزاد ملک سے اس سے زیادہ کی توقع پائی جاتی ہے اسے اسرائیل کے جرائم کے خلاف نہ صرف خاموشی اختیار کرنا چاہیے بلکہ ٹھوس موقف اختیار کرنا چاہیے اور کم سے کم اپنے سفارتی تعلقات سے ہی فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل کو نہتے فلسطینوں پر مظالم ڈھانے سے روکنا چاہیے لیکن شاید حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے کیونکہ ان دو ممالک کے مابین حالیہ معاہدوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارتی اور اسرائیلی ایک دوسرے کے نہایت قریب آگئے ہیں اور اور حالیہ دور میں دفاعی معاہدوں کے ساتھ ساتھ ثقافتی میدان میں بھی معاہدے کرچکے ہیں۔

لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اب ایران اور پاکستان کو ان دو قابض ریاستوں کے مقابلے میں محاذ کھولنا ہوگا اور یہ پاکستان کے پاس ایران کو نزدیک لانے کیلئے بہترین موقع ہے جس سے دونوں ممالک فائدہ اٹھا کر خطے میں اپنے مفادات کو احسن طریقے سے حاصل کرسکتے ہیں۔ 

اہم ترین اسلامی بیداری خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری