علم بادشاہ ہے اور مذہب جاہلیت کا مخالف !


علم بادشاہ ہے اور مذہب جاہلیت کا مخالف !

ہمارا ملک پاکستان اس لئے پیچھے ہے کیونکہ ہمارے تعلیمی ادارے پیچھے ہیں، تعلیمی اداروں کو لوگوں کا فائدہ نہیں ملتا، وہاں سے اچھے افرادنہیں نکلتے, ہم ملک کو ایک بہتر ترقی یافتہ ملک بنانا چاہتے ہیں تو اس کا دارومدار علم پر  ہے, دنیا کی طاقت اور قوت کا معیار محض علم پر ہی ہے.

خبر رساں ادارہ تسنیم: حضرت علی (ع) فرماتے ہیں: "العلم سلطان، من وجده صال بہ من لم یجده صلیه" ۔۔۔ علم بادشاہ ہے، جس نے اسے حاصل کیا، وہ چھاگیا، جس نے حاصل نہیں کیا اس پر  دوسرے چھا جائیں گے۔

ہمارے ملک اس لئے پیچھے ہے کیونکہ ہمارے تعلیمی ادارے پیچھے ہیں، تعلیمی اداروں کو لوگوں کا فائدہ نہیں ملتا، وہاں سے اچھے افرادنہیں نکلتے ہیں. ہم ملک کو ایک بہتر ترقی یافتہ ملک بنانا چاہتے ہیں تو اس کا دارومدار علم پر  ہے. دنیا کی طاقت اور قوت  کا معیارعلم پر ہے۔

 امام علی (ع) کہتے ہیں کہ علم ایک بادشاہ ہے. انسان ایک بادشاہ نہیں ہے، لیکن حقیقت میں علم ایک بادشاہ ہے، علم بادشاہ ہے، جس نے اسے حاصل کیا، وہ چھاگیا، جس نے حاصل نہیں کیا اس پر  دوسرے چھا جائیں گے۔ دنیا بھر کی ترقی کا راز علم میں  ہے. زندگی کے تمام شعبوں کا دارومدار علم پر ہے. اس لیےانسان کی قدر اور قیمت بھی علم کی وجہ سے ہے۔

 اسلام کی آمد سے پہلے عرب کے ماحول میں ہر قسم کی برائی موجود تھی، انسانی حقوق سلب تھے،انسان غلام، اقتصادیات ابتر، اور عورتوں کا احترام نہیں کیا جاتا تھا ،  کفر،شرک، اور بت پرستی عام تھی. اسلام  نے اس دور کو "جاھلیت کا  دور" کہا ہے، آخر اسلام نے اس  دور کو غلامی یا شرک یا دوسری برائی کا  دورکیوں نہیں کہا؟ اللہ کی نظر میں،تمام برائیوں کی بنیاد جھالت ہے. رسول اکرم (ص) اس ماحول کو تبدیل کرنے آئے. آپ نے انقلاب کے آغازکس نقطے سے کیا؟ قرآن کریم کی پہلی آیت نازل ہوئی ہے، "پڑھ اپنے رب کے نام سے"۔

اس انقلاب کا  آغاز  پڑھنے سے ہے اس اعلان میں پہلے علم ہے پھر  اللہ، علم نہیں ہوگا تو رب کس طرح معلوم ہو گا. مذہب کی نظر میں ہر برائی کی جڑ جھالت ہے ترقی  علم سے ہوگی. جہالت  گھرے  کنوے  میں پھنچاے گی جبکہ علم معراج پر پھنچاے گا۔ دین اسلام  میں علم حاصل کرنا فرض ہے اسلام میں ہر عورت و مرد پر علم حاصل کرنا واجب ہے، علم حاصل نہ کرنا جرم ہے جس کی سزا ہے۔

امام جعفری صادق (ع) فرماتے ہیں، "میں اس  چیز کو پسند کرتا  ہوں کہ میرے اصحاب کے سروں  پر کوڑے مارے جائیں کے وہ علم حاصل کریں"۔

مذہب کا کہنا ہے ہم سزا دیں گے مگر جاھل رہنے نہیں دیں گے۔ اگر کوئی جہاد کے میدان سے بھاگ جائے تو وہ بھاگنے والا ہے مگر جو علم کے میدان کو چھوڑ دے  وہ بھی میدان  جنگ سے بھاگنے والے سے کم نہیں ہے۔

 پاکستان میں تمام  کم فیصد افراد کو یونیورسٹیوں تک رسائی حاصل ہے، طالب علموں کو یونیورسٹیز تک پڑہنے کیلے بھیجیں۔ قوم کی تاریکی سے نکالیں. علم  نور اور روشنی ہے۔علم  ہے تو زندگی آسان ہے، جاہل انسان کیلئے برائی اور بھلائی میں فرق کرنا مشکل ہے۔

 ہمارے معاشرے میں،بیٹوں جو پڑہاتے ہیں اور  بیٹیوں کو نہیں پڑہاتے ہیں۔ والدین کہتے ہیں: " بیٹا  کما کر دے گا  بیٹی کیا دے گی؟ ایسا  لگتا ہےکہ ہم والدین نہیں بلکہ سرمایہ دار  ہیں، ہم بیٹے میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، ہم اس سے فائدہ اٹھائیں گے، مگر بیٹیوں پر خرچا نہیں کرتے۔ افسوس ہماری نظر بچوں پر شفیق باپ کی نہیں بلکہ  سرمائیدار کی طرح ہے۔ ہماری نظر اولاد پر  مھربان باپ والی نہیں مگر لالچ والی ہے۔. تعجب کی بات ہے ہم بیٹیاں نہیں پڑہاتے کہ وہ خراب نہ ھو جائیں، کیا بیٹے برے نہیں ہو سکتے؟ ہمارے معاشرے میں بیٹوں کے خراب ہونے کے امکانات زیادہ ہیں  نا کہ بچیوں کے۔لڑکیوں کو نہ پڑہانا انسانی سوچ نہیں ہے. ھمارے معاشرے میں علم حاصل کرکے روشنی حاصل کرنا کم اور نوکری حاصل کرنا  زیادہ اہم تصور کیا جاتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ علم کا مقصد اس کی وجود کو روشن نہیں کرنا ہے۔

یہ ہماری غلطی ہے کہ ہم پیسوں میں علم  کو ناپتے  ہیں. ہمیں علم حاصل کرنا چاہئے تاکہ ہم اپنے آپ کو کمال  تک پہنچائیں  اور اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کریں۔

سماجی ترقی کے بارے میں سوچیں.انبیا اور امامکس لئے آئے؟ وہ معلم اور اساتذہ تھے،  نبی معاشرے کا استاد ہے۔ انسان جب تک زندھ ہےطالب علم ہے. جو شخص جب  پئدائش سے مرنے تک  طالبعلم نہیں رہتا وہ نبی کا امتی نہیں ہے ہمارا انبیا اور آئمہ سے تعلق طالبعلم والا ہے اس لیے ضروری ہے کہ پیدائش سے وفات تک علم حاصل کرتےرہیں۔

بو علی سینا جیسے  انسان  سے  جب عالم دین موت کے بستر پر عیادت کرنے آتا ہے تو   یہ اس سے سوال کرتا ہے، عالم اس کو کہتا ہے تم موت کے نزدیک ہو۔ بو علی سینا کا کہنا ہے کہ " میرے لئے بہتر کیا سمجھتے ہیں کہ میں جان کر مروں یا  انجان ہوکر مروں؟" حقیقت یہ ہے کہ علم انسان کی انسانیت میں اضافہ کرتا ہے. جو شخص علم حاصل نہیں کرتا وہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔

آج ہماری صورت حال یہ ہے کہ ہم عام اوسط قیمت پر ووٹ فروخت کرتے ہیں. علم ہماری ترجیح نہیں ہے، اس لیے بھگت رہے ہیں۔

وہ علم جو سماج کے لئے اچھا ہے واجب ہے، لیکن وہ علم جو معاشرے کے مفاد میں نہیں ہے حرام ہے. قران پڑھنے میں بھی ثواب ہے اور فزکس پڑہنے میں بھی ثواب ہے۔. دینی  علم اور غیر دینی علم کی وراثت درست نہیں ہے. علم علم ہے قرآن  اس لئے پڑھیں کہ پرہ کر کمائیں گے یہ غلط اور غیر مذہبی ہے، لیکن میڈیکل یا ڈاکٹری اس لیے پڑہی  جائے کہ پڑہ کر غریبوں کی خدمت کروں گا تو یہ ایک اچھا طریقہ ہے۔

تحریر: انجینئر سید حسین موسوی

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری