دنیا میں حریت پسندی کی ہر تحریک کربلا کی مرہون منت ہے،علامہ ساجد نقوی


دنیا میں حریت پسندی کی ہر تحریک کربلا کی مرہون منت ہے،علامہ ساجد نقوی

محرم الحرام 1440 ھ کی مناسبت سے علامہ ساجد نقوی نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ نواسہ رسول اکرم ؐ ‘ فرزند علی و بتول ؑ ‘ محسن انسانیت حضرت امام حسین علیہ السلام کی جدوجہد اور واقعہ کربلا سے الہام لینے اور استفادہ کرنے کا سلسلہ61 ھجری سے آج تک جاری ہے اور تاقیامت جاری رہے گا دنیا میں حریت پسندی کی ہر تحریک کربلا کی مرہون منت نظر آتی ہے اور دنیا کی تمام حریت پسند تحریکیں امام حسین ؑ کی شخصیت سے متاثر نظر آتی ہیں۔

 دور حاضر میں بھی دنیا کے مختلف حصوں میں آزادی‘ استقلال اور حریت پر مبنی تحریکیں بھی کربلا اور حسینیت سے استفادہ کررہی ہیں اور ظلم و تجاوز کے خلاف حسینی عزم کے ساتھ جدوجہد کررہی ہیں،چونکہ معاشرے کے اجتماعی مسائل کے حل اور معاشرے میں انقلابی تبدیلی لانے کے لئے ایک مشن کی ضرورت ہوئی ہے اس لئے امام حسین ؑ کی جدوجہد کو ایک مشن کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

نواسہ رسول اکرم ؐ حضر ت امام حسین علیہ السلام نے صحرائے کربلا میں اپنے اصحاب و انصار سمیت شہادت کے درجے پر فائز ہوکر اسلام اور انسانیت کی بقاء کا انتظام فرمادیا۔ آپ کی جدوجہد اور مشن کا مرکزی نکتہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور دین محمدی ؐ کو یذیدی فکر‘ یذیدی اقدامات اور یذیدی نظام سے محفوظ رکھنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کربلا کے سفر کے دوران متعدد خطبات میں آپ ؑ نے اپنے قیام کے مقاصد اور اپنے سفر کی وجوہات کا تفصیل سے تذکرہ فرمایا تاکہ دنیائے انسانیت اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ امام عالی مقام اپنی ذاتی خواہشات یا خاندانی و گروہی مفادات کے لئے برسرپیکارہیں بلکہ دین اسلام‘ شریعت محمدی ‘ انسانی اقدار اور عوامی حقوق کے تحفظ کے لئے سرگرم عمل اور پرعزم ہیں اور اپنے موقف و نظریے میں اس قدر راسخ ہیں کہ تمام دنیاوی مشکلات حتی کہ شہادت بھی قبول کرنے کے لئے آمادہ و تیار ہیں۔

امام حسین ؑ کی شہادت اور واقعہ کربلا کی یاد منانے کے لئے صدیوں سے پوری دنیا میں ’’عزاداری سید الشہداء ‘‘ کا سلسلہ جاری ہے۔

 دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے مسلمان حتی کہ انسان اپنے اپنے طریقے سے عزاداری مناتے ہیں اور امام حسین ؑ کی لافانی جدوجہد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

اگرچہ برصغیر پاک و ہند میں صدیوں سے عزاداری کا سلسلہ جاری ہے لیکن اب پاکستان اس حوالے سے مرکز و محور بن چکا ہے اور کروڑوں فرزندان اسلام پورا سال بالعموم اور ایام محرم میں بالخصوص عزاداری کی محافل اور مجالس منعقد کرتے ہیں چونکہ عزاداری سید الشہداء جبر کے خلاف جہاد کرنے کا جذبہ عطا کرتی ہے اور اس سے انسان کے ذاتی رویے سے لے کر اجتماعی معاملات میں انقلاب رونما ہوتا ہے اس لئے ظلم و جبر اور شر کے حامی طبقات عزاداری کے مخالف اقدام کرتے ہیں حالانکہ پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق عزاداری منانا ہر شہری کا آئینی‘ قانونی‘ مذہبی اور شہری حق ہے جسے کوئی طاقت نہیں چھین سکتی۔

ایام عزا کی آمد سے قبل ہی ملک میں سنسنی‘ خوف‘ بدامنی یا جنگ کا سماں پیدا کرنایا کرفیو اور سنگیوں کے سائے تلے عزاداری و ماتم داری ہرگز قابل قبول نہیں کیونکہ محرم الحرام کسی جنگ، خوف یا بدامنی کا پیغام بن کر نہیں آرہا ہے بلکہ ایام عزاء مسلمانوں کے درمیان دین محمدیؐ اور اہلبیت محمد ؐ کی محبت وعقیدت میں اضافے اور شہدائے کربلا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک حسین موقع کے طور پر آتا ہے لہذا سرکاری سطح پر محرم الحرام کو خوف کی علامت اور انتشار کا باعث قرار دینا محرم کے تقدس کی نفی کرتا ہے اس صورت حال کا خاتمہ کرنا ریاست‘ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اولین ذمہ داری ہے۔

اسی طرح ایام عزا کے دوران تمام مسالک کے علماء ‘ خطباء ‘ مقررین‘ ذاکرین ‘ رہنماؤں اور جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ عوام کو اتحاد بین المسلمین‘ وحدت امت اور امن و امان کی طرف متوجہ کریں اور ایک دوسرے کے عقائد و نظریات کا احترام کرنے کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ تحمل‘ برداشت اور تعاون کا ماحول پیدا کریں‘ دہشت گردوں‘ فرقہ پرستوں‘ مذہبی جنونیوں اور شرپسندوں کے عزائم خاک میں ملانے کے لئے وحدت کو فروغ دیں، مثبت اقدامات میں تعاون کریں۔ امن کمیٹیوں اور اتحاد بین المسلمین کمیٹیوں میں اپنا بہترین کردار ادا کریں تاکہ محرم الحرام بخیر و خوبی اور امن و آشتی کے ساتھ گزرے اور مستقبل میں بھی مکمل طور پر اتحاد و وحدت کی فضا قائم ہو اور اسلام کے عادلانہ نظام کے نفاذاوراسلامی معاشرے کے قیام کی جدوجہد آسان ہو۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری