خصوصی تحریر| اہل فلسطین کو فتح مبارک


خصوصی تحریر| اہل فلسطین کو فتح مبارک

یو ں تو تحریک آزادی فلسطین کو ستر سال کا عرصہ بیت چکا ہے اور اس تاریخ میں فلسطینی قوم کو یہ افتخار حاصل ہے کہ ہر موقع پر شجاع اور دلیر اور پایہ دار ثابت ہوئی ہے ۔

تحریر: صابر ابو مریم 
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان 
پابرہنہ فلسطینیوں ایک ایسی خونخوار جعلی ریاست اسرائیل کے ساتھ مقابلہ ہے کہ جس کو دنیا ناقابل تسخیر بھی سمجھتی ہے اور امریکی حکومت اس وحشی اور جعلی ریاست اسرائیل کو اربوں ڈالر کا اسلحہ امداد کے نام پر بھی دیتی ہے تا کہ مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کا قتل عام جاری رہے اور فلسطین کی سرزمین پر پورے کا پورا قبضہ ان غاصب صہیونیوں کا ہو جائے کہ جن کو پہلی کنگ عظیم کے بعد سے دنیا کے مختلف گوش و کنار سے نکال کر فلسطین کی زمین پر لانے کا کام شروع کیا گیا تھا اور جنہوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد فلسطین پر اپنے غاصبانہ تسلط کا اعلان کیا۔
جعلی ریاست اسرائیل کے فلسطین پر غاصبانہ تسلط سے لے کر مسلسل فلسطینیوں کو صہیونیوں کے مظالم کا سامنا ہے اور ان مظالم کے سامنے فلسطینی مجاہد ملت نے ہمیشہ سے سر اٹھا کر مقابلہ کرنے کو ہی ترجیح دی ہے جس کے نتیجہ میں آج تک صہیونی جرثومہ اسرائیل اپنے بہت سارے ناپاک عزائم میں ناکام رہاہے۔
یوں تو اسرائیل نے خطے میں بہت سے عرب ممالک کے ساتھ جنگیں کی ہیں اور ان کے علاقوں کو ہتھیا ہے لیکن غزہ فلسطین کا ایک ایسا علاقہ ہے کہ جہاں تقریبا بیس ملین افراد بستے ہیں اور یہ سب کے سب فلسطینی عرب ہیں ان میں مسلمان، عیسائی ، یہودی اور دیگر اقلیتی مذاہب بھی شامل ہیں ، البتہ ان سب کی شناخت فلسطین سے ہے ۔
غزہ کی پٹی کو غاصب صہیونیوں نے سنہ2008ء میں پہلی مرتبہ پچاس سے زائد روز تک جنگ کے نشانہ پر رکھا تھا اور اس جنگ کا ہدف یہ تھا کہ فلسطینیوں کی نمائندہ مزاحمتی جماعت حماس کے سیاسی گروہ کی عام انتخابات میں کامیابی کا خاتمہ کیا جائے تا کہ ان کی حکومت کمزور ہو جائے یا ختم ہو جائے لیکن اسرائیل ان پچاس دنوں میں صرف معصوم انسانوں کا قتل عام کرنے اور غزہ کا انفرااسٹرکچر تباہ کرنے کے علاوہ اپنے کسی اہداف کو حاصل نہ کر پایا جبکہ فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں کی جانب سے جوابی کاروائیوں کے نتیجہ میں اسرائیل کو جانی ومالی نقصان اٹھانا پڑا اور اس باعث اسرائیل پسپائی کا شکار ہو کر رسوا ہواتھا۔
دوسری مرتبہ اسرائیل نے سنہ2012ء میں فلسطینی عوام پر اس وقت بمباری شروع کی جب ایک مڈ بھیڑ میں فلسطینی مزاحمت کاروں نے اپنا دفاع کرتے ہوئے صہیونی جعلی ریاست اسرائیل کے دو فوجیوں کو اغوا کر لیا تھا اور انہیں نا معلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا، ان فوجیوں کی بازیابی کے لئے اسرائیل نے بائیس روز تک یکطرفہ جنگ مسلط کر دی اور فلسطینی مزاحمت کاروں نے اس مرتبہ بھی نہ صرف اسرائیل کو ناکامی سے دو چار کیا بلکہ اسرائیل کو اس کے ہدف یعنی فوجیوں کی بازیابی میں بھی شکست دے دی جس کے باعث اسرائیل پسپا ہوا اور اپنی فوجوں کو غزہ سے نکال لیا۔
تیسری مرتبہ اسی علاقہ میں اسرائیل نے ایک اور فوجی آپریشن کا آغاز کیا جس کا دورانیہ 12روز رہا اور یہ سنہ2014ء میں ماہ رمضان المبار ک کا مہینہ تھا۔اس مرتبہ بھی اسرائیل نے مسلسل گولہ باری اور وحشت گری کرنے کے بعد اپنے اہداف کی تکمیل میں ناکامی کا اعتراف کیا اور غزہ کے علاقے سے نکل کھڑا ہوا ۔
گذشتہ بالا تینوں مسلط کردہ جنگوں میں فلسطینیوں کو بڑے پیمانے پر نقصان کا سامنا ہوا، جانی نقصان الگ، مالی نقصان الگ ہوا، اسی طرح مزید اس علاقہ کا انفراسٹرکچر تباہ وبرباد ہوا، بچوں کے وہ اسکول اور جامعات جو کہ اقوام متحدہ کے اداروں کے زیر نگرانی کام کر رہے تھے سب تباہ کر دئیے گئے، اسی طرح اسپتال جو ایمرجنسی حالات میں زخمیوں کی دیکھ بھال میں مصروف تھے وہ بھی اسرائیلی گولہ باری اور مظالم کا نشانہ بننے سے محفوظ نہ رہ پائے۔
درج بالا تمام تر حالات و واقعات کے بعد بھی یہ فلسطین ملت کا افتخار ہے کہ انہوں نے غاصب صہیونیوں کے سامنے اپنا سر تسلیم نہیں کیا بلکہ ہر موقع پر صہیونیوں کو ان کی جارحیت اور ظلم کے جواب میں اپنی مجاہدانہ مزاحمت سے سامنا کیا اور سرخرو ہوئے۔
حالیہ دنوں بھی اسرائیل نے غزہ کے اسی علاقے کو ایک مرتبہ پھر نشانہ بنایا اور کئی ایک فلسطینیوں کو جہاں شہید کیا ان میں مزاحمتی تحریک سے تعلق رکھنے والے حماس کے کمانڈر بھی شامل تھے لیکن اس مرتبہ اسرائیل اس جنگ کو دو سے تین روز سے زیادہ جاری رکھنے میں کامیاب نہ ہو پایا۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیل جسے پوری دنیا ناقابل تسخیر سمجھتی ہے جب جب اسلامی مزاحمت کی تحریکوں سے ٹکرایا ہے اس کی قوت کا بھرم پاش پاش ہوتا رہاہے ، چاہے وہ لبنان کے ساتھ 33روز ہ جنگ ہو یا پھر غزہ پر مسلسل چار مرتبہ حملے ہوں ، ہر مرتبہ ہی اسرائیل اپنی قوت کو ختم ہوتے مشاہدہ کر رہاہے اور یہ اسرائیل کے زوال کی بڑی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔غزہ پر اسرائیل کی جارحیت 51روزہ جنگ کے بعد اگلی جنگ میں22روز تک رہ گئی تھی جبکہ تیسری جنگ میں یہ دورانیہ صرف اورصرف 12روز پر آ گیا تھا اور اب کی مرتبہ تو اسرائیل کے حملوں اور مسلط کردہ جنگ کا دورانیہ دو سے تین روز رہاہے جو اس بات کا واضح اور کھلا ثبوت ہے کہ اسرائیل کے مقابلے میں فلسطینیوں کی پا برہنہ مزاحمت روز بروز طاقت ور ہو رہی ہے اور اسرائیل اس مقابلہ میں کمزور اور ناتواں ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی نابودی کی طرف گامزن ہے۔یہ بات یاد رہے کہ اس جنگ سے قبل مارچ سنہ2018ء سے فلسطینیوں نے اپنے حق واپسی فلسطین کی تحریک کا آغاز کر رکھا ہے جو تاحال جاری ہے اور ہر جمعہ کو اس عنوان سے بڑے پیمانے پر مظاہرے اور ریلیاں نکالی جا رہی ہیں جس کے باعث اسرائیل سمیت اسرائیل کے سرپرست امریکہ اور برطانیہ کی نیندیں بھی حرام ہیں ۔ یقیناً حضرت اقبال نے درست ہی کہا ہے کہ  مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ خطے میں موجود عرب و غیر عرب ریاستیں اور ان کی حکومتیں فلسطینیوں کی پشت پناہی کریں تا کہ فلسطین کے مظلوم عوام اپنی آزادی کے راستے کو جلد از جلد طے کریں اور فلسطین نہر سے بحر تک مکمل فلسطینیوں کا ہو جہاں عرب فلسطینی بشمول مسلمان، عیسائی، یہودی اور دیگر فلسطینی اقوام اپنی زندگیوں کا فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہوں۔

اے اہل فلسطین تمھیں غاصب اسرائیل پر فتح مبارک ہو۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری