لوگ نئی ایجادات کے مخالف کیوں؟ تاریخ ہمیں کیا درس دیتی ہے؟


لوگ نئی ایجادات کے مخالف کیوں؟ تاریخ ہمیں کیا درس دیتی ہے؟

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کوئی بھی نئی ایجاد توثیق و رد کے پانچ مراحل سے گزرتی ہے۔ معاشرے میں کی جانے والی نئ ایجادات کی مخالفت کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن چند ایک کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

پاکستانی کالم نگار مسعود چوہدری نے تسنیم نیوز کو بھیجے گئے اپنے کالم میں کہا ہے کہ معاشرہ لوگوں سے وجود میں آتا ہے اور لوگ ہی اپنے رہن سہن اور اقدار کا تعین کرتے ہیں لیکن اسلامی معاشرہ اس تعین کے ساتھ ہی ساتھ کچھ افکار ماضی سے مستعار لیتا ہے اور انہی افکار کی روشنی میں اقدار کو وضع کیا جاتا ہے۔ یعنی یوں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ ہمیشہ ان مسلمہ اقدار کی روشنی میں ہی جدیدیت اور جدت کے اسلامی معاشرے میں کردار کا تعین کیا جاتا ہے۔

اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو کوئی بھی نئی ایجاد ہمارے ہاں پانچ مراحل سے گزرتی ہے۔ پہلے مرحلے میں ایجاد کی صرف اس بناء پر مخالفت کی جاتی ہے کہ یہ پہلے موجود نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ مرحلہ مؤجد کے لئے سب سے زیادہ کٹھن ہوتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں چند لوگ مذمت اور چند ایک معترف ہو جاتے ہیں اور یوں اس ایجاد کے حق اور مخالفت میں دلائل کا سلسلہ چل نکلتا ہے۔ تیسرے مرحلے میں معاشرہ ایجاد کو جگہ دینا شروع کرتا ہے اور پرانی شے پر فیشن کے طور پر فوقیت دینا شروع کر دیتا ہے۔ زیادہ تر امراء نئی ایجادات کو استعمال کرتے پائے جاتے ہیں اور غرباء اور امراء میں ایک باریک لکیر کے طور پر اس ایجاد کو لیا جانے لگتا ہے۔ چوتھے مرحلے میں اس ایجاد کی سرایت معاشرے میں ایک لازم و ملزوم کی حیثیت اختیار کر جاتی ہے اور یوں معلوم ہونے لگتا ہے کہ گویا کبھی کوئی مخالف تھا ہی نہیں۔ اس کے بعد ایجاد کے نئے سے پرانے ہونے کا سفر شروع ہوتا ہے اور ایجاد اپنی پوری افادیت معاشرے میں منتقل کر چکنے کے بعد  یا ارتقاء یا التفات کی جانب گامزن ہو جاتی ہے۔

مائکروسافٹ کے مالک اور فاؤنڈر بل گیٹس کو پریشانی لاحق ہے کہ لوگ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی جانب کیوں شک کی نگاہ سے نہیں دیکھتے کیونکہ وہ ایلن مسک کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں کہ مصنوعی سوچ کے حامل آلات ایک روز انسان کی جگہ لے لیں گے اور شاید ہم اس کے غلام ہو جائیں گے اور شاید ہم انسان ہی نہ رہیں اور صرف مشینیں ہی مشینیں ہوں جبکہ دوسری جانب مائکروسافٹ کے ہی ریسرچ ہیڈ ایرک ہاروٹز اس بات سے اتفاق نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ یہ انسان کے اندرونی خوف سے زیادہ بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے۔

اس طرح کی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں جو کہ آج ہمارے ارد گرد موجود ہیں لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ بات قابل غور ہے کہ ایک خاص طرح کی ہی ٹیکنالوجی ایجادات کی ہی کیوں مخالفت کی جاتی ہے۔ گو کہ مختلف معاشروں میں یہ مفروضہ مختلف اشیاء کی جانب اشارہ کرتا ہے لیکن تمام دنیا کا اس بات پر اتفاق دکھائی دیتا ہے کہ رسمی اور غیر رسمی ہتھیاروں پر جتنا بھی جدید کام کیا جائے اور جو بھی نئی ٹیکنالوجی متعارف کرائی جائے اسے نہ صرف قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بلکہ اس کے حصول کے لئے جدوجہد کی پذیرائی بھی کی جاتی ہے۔

یہاں میں ایک مثال سے وضاحت پیش کرنے کے بعد آگے بڑھنا چاہوں گا کہ جب ٹی وی ایجاد ہوا لگ بھگ اسی وقت ایٹم بم بھی ایجاد کیا گیا۔ نصف صدی کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹی وی کے خلاف پہلے پہل فتاوی دیئے گئے. اسے شیطان کا آلہ قرار دیا گیا۔ اسے سڑکوں اور چوراہوں پر رکھ کر توڑا گیا اور اس کی ہر ممکن انداز میں مذمت کی گئی۔ خواہ یورپ کا معاشرہ ہو یا ایشیاء کا ہر جگہ معاملہ کم و بیش ایک سا ہی پایا گیا لیکن آج وہ ہی لوگ اوپر بیان کردہ عمل اور مراحل سے گزرنے کے بعد ٹی وی اور اس سے جڑے شعبہ جات کو نہ صرف من و عن قبول کر چکے بلکہ آج اس تگ و دو میں ہیں کہ کیسے ایک دوسرے پر سبقت لی جا سکے۔ یہ ایک ایسا غیر روایتی ہتھیار بن چکا ہے جو کہ ایٹم بم سے بھی زیادہ خطرناک ہے اور جس کی مدد سے کی جانے والی تباہی ایک خاص علاقہ نہیں، ایک خطہ ارض نہیں بلکہ پوری نسل انسانی پر اپنے گہرے اثرات چھوڑتی ہے۔ دوسری جانب آج کے دور میں سب سے بڑا روایتی ہتھیار ایٹم بم گردانا جاتا ہے، گو کہ ہائڈروجن بم کو سب سے زیادہ طاقتور بتایا جاتا ہے لیکن چونکہ اس کے مالک صرف دو ممالک اپنے آپ کو گردانتے ہیں اور عین الیقین کی مانند ہمیں کیا معلوم کہ وہ ہے بھی یا صرف ڈراؤنا مجسم ہی ہے لیکن ایٹم بم جیسے ہی دنیا کی نظروں کے سامنے آیا اس ٹیکنالوجیکل ایجاد کو نہ صرف حاصل کرنے کی جستجو کی گئی بلکہ اسے بین الاقوامی سیاست میں ایک شجر طوبیٰ کا درجہ بھی حاصل ہوا۔ اس کے اثرات نہ تو پوری نسل انسانی پر ہیں، نہ ہی پورے قبیلے پر بلکہ صرف ایک دوسرے کو دکھانے کے لئے ہیں۔ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری صرف دکھانے کے لئے جس کا انسانی سوچ پر اپنے مخالف کے اعصاب پر ڈر پیدا کرنے کے سوا کوئی اور مقصد ہی نہیں۔

بلا شبہہ سوچ پر حکومت ہی اصل حکمرانی ہے جو کہ اس مثال کے مطابق ٹی وی تو کر رہا ہے لیکن ایٹم بم نہیں۔

جلد شروعات کرنے والا زیادہ پھل توڑتا ہے لیکن آج اگر ہم اپنے ارد گرد دیکھیں تو ہم نے مسلم امہ کا نقصان جدیدیت کی شروعات نہ کرنے کے سبب بھی کیا ہے۔ یعنی ہم نئی نئی چیزوں کی ایجاد میں سست رو پائے جاتے ہیں اور آخر کار مقلد کے طور پر گردان دئے جاتے ہیں۔ ہمارے ذرائع نقل و حمل سے لیکر داستان گوئی تک سب ایجادات ہی کسی نہ کسی غیر مسلم ملک کی مرہون منت دکھائی دیتی ہیں۔ وجہ؟ ہمارے ایک قدم آگے نکلنے کی روش کا ترک کر دینا۔ ایک وقت تھا جب ابن الہیثم اور الکندی جیسوں نے غلبہ اسلام میں اپنا کردار ادا کیا لیکن آج ہم اس نہج پر ہیں کہ الجبرا جیسے عظیم تدریسی اصول کی روزمرہ زندگی میں عملداری پر نہ تو ہمارا معلم اور نہ ہی ہمارا طالب علم توجہ دیتا پایا جاتا ہے۔

تشخیص مرض علاج سے زیادہ مشکل ہوا کرتا ہے۔

وجوہات درج زیل ہیں :

1۔ مسلمان معاشرہ جات آپس میں اتنے زیادہ اختلافات کا شکار ہیں کہ کسی بھی دوسرے اسلامی مملکت کی ریسرچ سے فائدہ اٹھانے کو تیار ہی نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایک ہی کام چھ یا سات مختلف ممالک میں ایک ہی انداز میں جاری ہے اور اگر کوئی کامیابی حاصل کر لے اور کوئی نئی ایجاد کر لے تو باقی سب مل کر اس ایجاد کے ہی مخالف۔

2۔ معاشرہ اس وقت بھی کسی ایجاد کو ترک کر دیتا ہے جب اسے کچھ دوسری ایجاد اچھے نعم البدل کے طور پر مل جائے۔ اس معاملے میں وہ ملک و ملت کو ترجیح نہیں دیتا جو کہ پوری قوم کے ہی پیچھے رہ جانے کا سبب بن جاتی ہے۔

3۔ لوگ لڑائی جھگڑے میں استعمال کئے جانے والے اور جدید ہتھیار صرف اس وجہ سے قبول کر لیتے ہیں کہ اس میں اپنے مخالفین پر فخر کا عنصر بہت زیادہ پایا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب، ای سائیکل چونکہ انکے مخالف پر انکی دھاک جمانے کے لئے انکی مددگار نہیں ہے لہٰذا اس میں کوئی منفعت نظر نہیں آتی خواہ وہ ایجاد کتنی ہی ماحول دوست اور انسانیت کی فلاح کا عنصر رکھتی ہو۔

4۔ ہم مشین کو بھی انسان کی طرح حکم کا پابند دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے استعمال کے لئے اپنے ماحول سے متصل اشیاء کو زیادہ پسند کرتے ہیں جبکہ زیادہ تر نئی ایجادات کے ایجاد کئے جانے کے بعد انکا مصرف واضح ہو پاتا ہے۔ جیسے آپ لیزر کی ہی مثال لے لیں کہ جب ایجاد ہوا تو کوئی اسکا مصرف نہیں جانتا تھا لہٰذا اسے مخالفت اور فضولیات میں گردان دیا گیا لیکن آج کمپیوٹر سے لے کر ہوائی جہاز تک ہر جگہ ہی اس کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

5۔ معاشرہ جس شے کو سمجھ نہیں پاتا اسے رد کر دیتا ہے۔ ارشمیدس پانی کے ٹب میں بیٹھا تو اسے بحری جہاز کے  پانی میں تیر سکنے کے اصول کا علم ہوا لیکن جب تک بحری جہاز بنا کر تیرتا ہوا عوام کو نظر نہیں آ گیا انہوں نے اس دریافت کو رد ہی کئے رکھا۔

6۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہو تو ٹھیک وگرنہ بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ٹریکٹر جب امریکہ میں ایجاد کیا گیا تو لوگ اس کے استعمال سے ناواقف تھے۔ لہٰذا انہوں نے اسے گھوڑوں پر ترجیح بالکل نہ دی اور ایک وقت آیا جب میسی کمپنی جو کہ اس ایجاد کی مؤجد گردانی جاتی ہے، بند ہونے لگی تو خصوصی گرانٹ کی مدد سے اسے بچایا گیا۔ پھر وقت گزرا اور لوگوں کو معلوم ہوا کہ یہ وہ ایجاد ہے جس کی مدد سے وہ مہینوں کا کام دنوں میں با آسانی کر سکتے ہیں تو معاملہ اس نہج تک پہنچا کہ آج بھی میسی سب سے زیادہ منافع بخش کمپنیوں میں سے ایک ہے۔

جب آپ پیچھے رہ جاتے ہیں تو آپکی اپنی ایجادات آپ کے لوگوں کے لئے معنی کھو بیٹھتی ہیں لہٰذا جو کوئی بھی اس مقالے کو پڑھنے کے بعد یہ سوچ رہا ہے کہ ایجاد کار کی حیثیت سے وہ کہاں سے شروع کرے تو اسے ضرورت اس امر کی ہے کہ وہاں سے شروع کرے جہاں مد مقابل پہنچ چکا ہے۔ اس طرح آپ وہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جس پر آپکے اپنے لوگ بھی رشک کریں گے اور مخالفین بھی استعمال کی خواہش۔ آخر میں ایک مثال ایلفی کی دینا چاہوں گا کہ جب اس کے مالک نے ایک ایسا فارمولہ ایجاد کر لیا جو کہ بہت جلد اور بہت اچھا جوڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس نے جرمنی کی ایک کمپنی سے رابطہ کیا کہ وہ اس فارمولہ کی قیمت کا تعین کرے اور خرید لے۔ جرمنی والوں نے اس فارمولے کو چیک کیا تو بین الاقوامی معیار سے بڑھ کر پایا۔ قیمت دس لاکھ ڈالر آفر کی گئی جو کہ اس وقت پاکستان کے کروڑوں روپے بنتے تھے۔ ایلفی کے مالک نے اپنی والدہ سے مشورہ کیا اور والدہ نے اس ایجاد کو پاکستان میں متعارف کروانے کا مشورہ دیا۔ بادل نخواستہ ماں کا حکم تھا تو پاکستان میں متعارف کروا دیا۔ ایلفی کے مالک کا کہنا ہے کہ دو سال تک کچھ بھی نہیں بکا پھر ایک دن وہی جرمن کمپنی کا اہلکار ان کے پاس آیا اور ان سے تین لاکھ ڈالر کا مال خرید کر لے گیا۔ اس پیسے سے لگنے والی ایلفی کمپنی آج پوری دنیا میں کاروبار کر رہی ہے اور ایک اندازے کے مطابق اربوں روپے سالانہ کا کاروبار کر رہی ہے۔ اگر اس ایجاد کو بھی باقی بہت سی اسلامی دنیا میں کی جانے والی ایجادات کی طرح یورپ کو فروخت کر دیا جاتا اور پھر یورپ پوری دنیا میں اپنا لیبل لگا کر فروخت کرتا تو وہ زر مبادلہ جو پاکستان کو حاصل ہوا کسی جرمن ملک کے اکاؤنٹ میں پڑا ہوتا۔ التماس صرف اتنی ہے کہ آپ جب بھی خریداری کریں اپنے ملک و ملت و معاشرے کے مفاد کو بھی ملحوظ خاطر رکھیں۔

اپنا, دوستوں, رشتہ داروں کا خیال رکھیں... تحریر پڑھنے کا شکریہ!

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری