پاکستان میں داعش کی موجودگی، حقیقت یا فسانہ


پاکستان میں داعش کی موجودگی، حقیقت یا فسانہ

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سرگرم شدت پسند اور دہشت گرد گروہ آپریشن ضرب عضب کے دوران ہی یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ اپنی بقا کے لئے متحد ہو کر اب داعش کا نام استعمال کیا جائے اور خود سے حکومت اور سیکیورٹی اداروں کی توجہ ہٹانے کے لئے ایک نئی سازش کے تحت عوام میں پہلے سے زیادہ خوف و ہراس پھیلائیں۔

خبررساں ادارے تسنیم کے مطابق، پاکستانی کالم نگار محمد نظیر بنگش نے اپنے مقالے میں پاکستان میں داعش کی موجودگی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس گروہ کے کارندے کسی دوسرے ملک سے نہیں آئے ہیں بلکہ پاکستان میں پہلے سے موجود دہشت گرد تنظیموں کے کارکن ہیں جو پاک فوج کے آپریشن ضرب عضب اور حکومت کی جانب سے جاری نیشنل ایکشن پلان سےخوفزدہ ہو کر داعش کا نام استعمال کر رہے ہیں۔

دہشت گرد گروہ داعش نے عرصہ پہلے خلافت اسلامی کے نام سے نام نہاد حکومت کا اعلان کیا کہ اس گروہ کا ہدف خراسان نامی ایک اسلامی ریاست کا قیام ہے جس کی سرحدیں ایران، افغانستان، پاکستان، بھارت اور دیگر وسطی ایشیا تک پھیلی ہوں گی۔

پاکستان میں موجود دہشت گرد گروہوں نے تقریبا دو سال پہلے سے داعش کے نام سے اپنی تبلیغات کا آغاز کیا ہوا ہے جس کا ثمر شیعہ سنی عوام کو درگاہ شاہ نورانی جیسے حملوں میں ملا ہے۔

اگرچہ پاکستانی حکام نے ان دو سالوں کے دوران بارہا اعلان کیا کہ داعش کے لئے اس ملک میں کوئی جگہ نہیں ہے تاہم حالیہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دہشتگرد تنظیمیں داعش کے پرچم تلے نہ صرف متحد ہوئی ہیں بلکہ منظم بھی ہو چکی ہیں۔

بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ دہشت گرد گروہ حزب التحریر پاکستان میں داعش کی بیعت کرنے والے گروہوں میں سرفہرست تھا جس کا ایجنڈا پہلے ہی سے خلافت اسلامی کا قیام ہے۔

سابق وزیر داخلہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما رحمٰن ملک نے دو سال قبل کے بیان کا تکرار کرتے ہوئے ایک بار پھر تاکید کی ہے کہ پاکستان میں داعش کا نیٹ ورک موجود ہے اور وہ تیزی کے ساتھ مضبوط ہورہی ہے۔

رحمٰن ملک کے مطابق، القاعدہ کا نیٹ ورک کمزور ہوا ہے، جبکہ داعش اس وقت پاکستان کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سرگرم شدت پسند اور دہشت گرد گروہ آپریشن ضرب عضب کے دوران ہی یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ اپنی بقا کے لئے اب داعش کا نام استعمال کریں اور عوام میں پہلے سے زیادہ خوف و ہراس پھیلا کر دیگر دہشتگرد گروہوں سے حکومت اور سیکیورٹی اداروں کی توجہ ہٹادیں۔

بلوچستان میں ہونے والے حالیہ واقعات کے بعد صوبائی حکومت کے ترجمان انوار الحق کاکڑ نے کہا تھا کہ ان حملوں میں مقامی کالعدم تنظمیں ہی ملوث ہیں، لیکن وہ اپنے ہندوستانی ماسٹر مائنڈز کے کہنے پر خود ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے داعش کا نام استعمال کرتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را ہمیشہ کے لئے پاکستان کی بنیادیں کھوکھلے کرنے کے درپے ہے اور اس کی حمایت یافتہ گروہ بھی پاکستان کے مختلف علاقوں بالخصوص کراچی اور بلوچستان میں سرگرم عمل ہیں تاہم حکومت کو اس امر کی جانب بھی توجہ دینی چاہئے کہ القاعدہ جیسی تنظیمیں جنہوں نے خطے میں لاکھوں مظلوم مسلمانوں کو خاک و خون میں غلطاں کیا، سعودی فنڈنگ سے ہی وجود میں آئی تھی۔

رحمان ملک نے دو سال قبل بیان دیا تھا کہ ان کے پاس داعش کی صوبہ پنجاب میں موجودگی کے ثبوت موجود ہیں جس کا اصل مرکز گوجرانوالہ ہے جبکہ حالیہ بیان میں ان کا کہنا تھا کہ کچھ ایسے واقعات کا انہیں علم ہے جن میں داعش کے لوگ یہاں سے تربیت لینے کے لیے عراق اور مصر جیسے ممالک جاتے ہیں اور جب وہ وہاں سے واپس آتے ہیں تو لشکرِ جھنگوی جیسے گروہ کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔

رحمٰن ملک کا کہنا تھا کہ یہی طریقہ القاعدہ نے بھی استعمال کیا تھا اور اُن کے دہشت گرد افغانستان سے تربیت لے کر پاکستان آئے اور یہاں آکر انھوں نے بڑی کارروائیاں کیں۔

انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں حال ہی میں ہونے والے دو بڑے حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا نیٹ ورک ایک کم وقت میں ناصرف منظم ہوا ہے، بلکہ وہ اب بڑی کارروائی کرکے اپنا رنگ بھی دکھا رہی ہے۔

سابق وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ حکومت میں شامل کچھ لوگ کہتے ہیں کہ داعش موجود ہے، جبکہ کچھ اس سے انکار کرتے ہیں، لہٰذا قوم کو واضح طور پر بتانا چاہیئے کہ حقیقت کیا ہے۔

یہ ایسے موقع پر ہے کہ حکومتی نمائندے اوائل میں پنجابی طالبان کی موجودگی کو بھی مسترد کرتے رہے تاہم بعد میں انہیں اس سلسلے میں اعتراف کرنا پڑا۔

اگرچہ سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک کو یقین ہے کہ ملک میں داعش سرگرم ہورہی ہے، لیکن حکومت پاکستان میں داعش کے وجود سے انکار کرتی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ سالوں کے دوران 60 ہزار سے زائد عام شہریوں کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سینکڑوں اہلکار دہشت گرد گروہوں بشمول تحریک طالبان، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ، جند اللہ اور دیگر کے ہاتھوں شہادت پر فائز ہو چکے ہیں۔

اب جبکہ پاک فوج کے آپریشن ضرب عضب کے طفیل دہشت گردوں کی سرگرمیاں کسی حد تک کم ہو گئی ہیں، مغربی اور سعودی نواز گروہ جو اس سے پہلے مختلف شکلوں میں پاکستان کی بنیادیں کھوکھلے کرنے کے لئے سرگرم تھے، اب داعش کے نام سے مملکت خداداد کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے درپے ہیں۔

اسی بناء پر حزب التحریر جیسی دہشت گرد تنظیموں نے براہ راست ابوبکر البغدادی سے رابطہ قائم کرکے اس کی بیعت کی ہے اور اسی طرح تحریک طالبان اور جنداللہ کے بعض کمانڈروں نے بھی عرصہ پہلے داعش کی حمایت کا اعلان کیا ہوا ہے۔

جبکہ سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی اور دیگر گروہوں نے جن کے داعش سے نزدیک روابط ہیں، نے ابھی تک اپنی حمایت کو آشکار نہیں کیا ہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں عرصے سے سعودی نواز دہشت گرد گروہ شیعہ سنی عوام کو نشانہ بنانے سے کسی قسم کا دریغ نہیں کرتے تو یہ بات بھی روز روشن کی طرح واضح ہے کہ شام و عراق میں لڑنے والے داعشی دہشت گرد جو امریکہ اور سعودی اتحاد کی پیداوار ہے، اب پاکستان میں سرگرم ہونے کے لئے بے تاب ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں داعش کا نام لیکر شیعہ اور سنی عوام کو نشناہ بنانے والے دہشت گرد ان ہی گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں جو ماضی میں سعودی فنڈنگ کی توسط سے سرگرم عمل رہے ہیں اور اب نام تبدیل کر کے عوام کے اندر ایک نئی سازش کے تحت خوف و ہراس پھیلانا چاہتے ہیں۔

اس سے پہلے کہ داعش دیگر دہشت گرد تنظیموں کی طرح مملکت خداداد میں اپنے بیرونی آقاؤں کے اہداف کو پورا کرنے کے لئے منظم ہو، حکومت ٹھوس اقدامات کرتے ہوئے ایسے عناصر کا ملک بھر سے صفایا کرے بصورت دیگر، عوام نے گزشتہ سالوں کے دوران جتنے جنازے اٹھائے ہیں، ان میں داعش کے منظم اور مضبوط ہونے سے کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہیں۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری