بحرین کی مظلوم انقلابی تحریک کے سات سال-1


بحرین کی مظلوم انقلابی تحریک کے سات سال-1

بحرین کے عوام نے 14 فروری 2011 میں اپنی عوامی تحریک کا آغاز کیا اور اب اس تحریک کو سات سال پورے ہو چکے ہیں ۔ بحرین کی اس تحریک کو انقلاب مرورید کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق حرینی انقلاب کی ساتویں سالگرہ کی مناسبت سے اس ملک کے مختلف شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور اسی سلسلے میں«الشاخورہ» اور «اَبوصَیْبَع» کے علاقوں میں ہونے والے حالیہ احتجاجی مظاہروں میں مظاہرین نے واضح الفاظ میں کہا کہ اس ملک میں جاری بحران کا خاتمہ آل خلیفہ حکومت کے خاتمے سے ہی ممکن ہے۔

مظاہرین نے آل خلیفہ حکومت کے خلاف فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے بحرین کے انقلابیوں کے خلاف تشدد آمیز کارروائیوں کو فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا۔

واضح رہے کہ بحرین کی آمریت مخالف قوتوں نے چودہ فروری کو صبح اور شام کے وقت ملک گیر مظاہروں کی اپیل کی تھی جس کا عوام نے بھر پور خیر مقدم کیا۔

اس موقع پر آل خلیفہ حکومت نے بحرینی عوام کے خلاف پرتشدد کارروائیاں انجام دیتے ہوئے اس ملک میں ایک سو پیتالیس بار انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی۔

بحرین کی شاہی حکومت سعودی فوج کے تعاون سے عوامی انقلابی تحریک کو کچلنے کی کوشش کر رہی ہے تاہم سات برس گزرنے کے باوجود بحرینی عوام استقامت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق بحرین میں آمریت مخالف تحریک کی سالگرہ کے موقع پر بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے شاہی حکومت کے خلاف زبردست نعرے بازی کی۔

خبروں میں کہا گیا ہے کہ شاہی حکومت کے سیکورٹی اہلکاروں نے العکر کے علاقے میں آمریت کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر آنسو گیس کی شیلنگ اور بعد ازاں فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں متعدد مظاہرین زخمی ہو گئے۔

کہا جا رہا ہے کہ بعض علاقوں میں بحرین کی شاہی حکومت کے سیکورٹی اہلکاروں اور خاندانی آمریت کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کے درمیان شدید جھڑپیں ہو ئیں۔

نویدارات کے علاقے میں بھی شاہی اہلکاروں اور آمریت مخالفین کے درمیان جھڑپوں کے بعد سیکورٹی فورس کے اہلکاروں نے علاقے کا مکمل محاصرہ کر لیا ہے اور علاقے میں آمد و رفت معطل کر دی۔

ابوصبیح اور شاخورہ کے علاقے میں بھی شاہی حکومت کے سیکورٹی اہلکاروں نے انقلاب بحرین کی حمایت میں مظاہرہ کرنے والوں پر حملے کیے۔

تازہ خبروں میں کہا گیا ہے کہ شاہی حکومت کے سیکورٹی اہلکاروں نے دارالحکومت منامہ کے مرکزی علاقے کا رابطہ نواحی علاقوں سے کاٹ دیا ہے اور علاقے میں مظاہرین کے داخلے کو روکنے کے لیے جگہ جگہ چیک پوسٹیں قائم کر دی تھیں۔

قابل ذکر ہے کہ چودہ فروری بحرین میں عوامی انقلابی تحریک کی ساتویں سالگرہ تھی۔ بحرین کی شاہی حکومت سعودی فوج کے تعاون سے عوامی انقلابی تحریک کو کچلنے کی کوشش کر رہی ہے تاہم سات برس گزرنے کے باوجود بحرینی عوام استقامت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

حکومت بحرین نے انقلابی تحریک کو کچلنے کے لیے اس تحریک کی حمایت کرنے والے سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کو گرفتار اور بے بنیاد الزامات کے تحت م‍قدمہ چلا کر انھیں جیلوں میں بند کر دیا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق بحرین کی شاہی حکومت پچھلے چھے سال کے دوران گیارہ ہزار بحرینیوں کو مختلف الزامات کے تحت گرفتار کر کے جیلوں میں بند کر چکی ہے اور ان میں سے متعدد کی شہریت منسوخ کر کے انہیں ملک بدر کر دیا گیا ہے۔مغربی ایشیا کے اس چھوٹے سے ملک بحرین میں آبادی کے لحاظ سے سیاسی قیدیوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بحرین کے بادشاہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بحرین کی تمام سرگرم شخصیات منجملہ نبیل رجب کو فوری طور پر رہا کرے۔

شاہ بحرین حمد بن عیسی آل خلیفہ کے نام ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے پیغام میں مطالبہ کیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی سرگرم شخصیات اور تمام بے گناہ بحرینیوں کے خلاف پرتشدد کارروائیاں بند اور انھیں فوری طور پر آزاد کریں۔ بحرین کے سیکورٹی حکام نے نبیل رجب کو تقریبا ڈیڑھ برس قبل ان کے گھر سے گرفتار کیا ہے اور ان کے گھر کا سارا سامان بھی ضبط کر لیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے ٹی وی انٹرویوز میں بحرین کی ساکھ بگاڑ کر پیش کی ہے۔

اس سے قبل بحرین کی نمائشی عدالت نے ان کو دو برس قید کی سزا سنائی تھی۔ ان پر اکّیس فروری سے اپنے ٹوئٹر پیج پر بحرین کے خلاف ٹوئٹ کرنے کے الزام میں ایک اور مقدمے کی سماعت ہونے والی ہے۔اس انقلاب کو سات سال بیت چکے ہیں اور جہاں ایک طرف بحرین کی ڈکٹیٹر اور استبدادی آل خلیفہ حکومت اس تحریک کو کچلنے کے لیے سر توڑ کوشش کر رہی ہے تو دوسری طرف اس تحریک کے تسلسل نے اس انقلاب کے کئی پہلوؤں کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔ اس تحریک کی دنیا بالخصوص خطے کی دیگر عوامی تحریکوں سے بنیادی فرق یہ ہے کہ اس تحریک پر عالمی برادری نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور اس پر عالمی سطح پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسکے علاوہ بحرین میں چلنے والی اس تحریک کا مصر، تیونس، لیبیا اور یمن سے بنیادی فرق یہ ہے کہ بحرین کے ڈکٹیٹر کو بچانے کے لیے سعودی عرب نے اپنی فوجیں بحرین میں اتار دیں اور یوں آل خلیفہ حکومت بیرونی فوجی مدد کیوجہ سے تیونس، لیبیا اور یمن جیسی صورت حال سے دوچار نہ ہو سکی۔ بحرین کی عوامی تحریک کی ایک اور بڑی مشکل انسانی حقوق حتی اقوام متحدہ کا جانبدارانہ اور مجرمانہ کردار ہے جسکی وجہ سےے اس عوامی تحریک کو باہر سے خاطر خواہ پذیرائی حاصل نہ ہو سکی۔ اقوام متحدہ سمیت اکثر عالمی اداروں نے نہ صرف بحرین کے مظلوم اور جمہوریت کے لیے آواز اٹھانے والے عوام کی مطلوبہ مدد نہ کی بلکہ بعض اوقات تو اس تحریک کے راستے میں رکاوٹیں بھی کھڑی کی ہیں۔

(جاری ہے)

 

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری