بشار جعفری کے سوال "تم بشار اسد سسٹم کی پیداوار ہو" پر ہوش ربا جوابات


بشار جعفری کے سوال "تم بشار اسد سسٹم کی پیداوار ہو" پر ہوش ربا جوابات

"انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستانی چینلز شام کے حوالے سے وہی باتیں نشر کر رہے ہیں، جو اسرائیل اور امریکہ کے چینلز پر آرہی ہیں، کیونکہ میں دونوں طرف کے چینلز کو تواتر کے ساتھ دیکھتا ہوں، اس سے پاکستان میں خوامخواہ میں شیعہ سنی تناؤ پیدا ہو رہا ہے۔"

خبررساں ادارہ تسنیم: یہ وہ خطاب ہے جو شامی ڈپلومیسی کے شیر بشار جعفری نے کیا، جب ان کو کہا گیا کہ تم بشار الاسد سسٹم کی پیداوار ہو، تو ان کا جواب آسمانی بجلی کی طرح تیزی سے اور کڑک کے ساتھ کچھ یوں آیا۔

"جی ہاں میں اس سسٹم کی پیداوار ہوں جس نے مجھے بچپن سے لیکر یونیورسٹی تک کی تعلیم اتنے پیسوں میں کرادی جتنے پیسوں میں ایک کے ایف سی فیملی برگر آتا ہے، جی ہاں میں اس سسٹم کی پیداوار ہوں جس نے تین دہائیوں تک مجھے اور شام کی ساری عوام کو ڈیزل عالمی قیمت سے کم ایک چوتھائی اور پٹرول دو تہائی قیمت پہ فراہم کیا، اور اسی طرح روزمرہ کی باقی ضروریاتِ زندگی بھی، یہ سب کچھ صرف اس لئے ممکن ہوا، کہ حکومت مسلسل اپنی عوام کو ریلیف فراہم کرتا رہا، اس کے باوجود کہ حکومت کا اپنا اقتصادی نظام بلکہ ابتدائی مراحل سے گزر رہا تھا۔

میں اس نظام کی پیداوار ہوں جس نے سب عربی ممالک کے برعکس جس میں خلیجی جہموری ریاستیں بھی شامل ہیں، تمام غیر آباد علاقوں میں غریب عوام کے لئے گھر بنا کر وہاں بجلی، پانی اور تمام تر ممکنہ ضروریاتِ زندگی فراہم کر دیں، میں اس سسٹم کی پیداوار ہوں جس نے پچھلے چالیس سال سے تمام شامی عوام کو چینی اپنی اصل قیمت سے کم ایک چوتھائی قیمت پہ فراہم کی۔  میں اس سسٹم کی پیداوار ہوں جس نے مجھے اور مجھ جیسے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو ایک وقت کے کھانے سے بھی کم قیمت پر یونیورسٹی کی تعلیم دلا کر، شامی عوام کو ڈاکٹرز، وکیل اور یونیورسٹیوں کے پڑھے لکھے لوگ فراہم کئے۔

جی ہاں میں اس سسٹم کی پیداوار ہوں، جس نے لبنان میں اپنی فوج بھیج کر، اپنے جوانوں کی قربانیاں دے کر لبنان کی حفاظت کی، اور اس کا کھویا ہوا وقار واپس کر دیا، اور وہاں نئے سرے سے امن وامان کی فضاء قائم کردی۔ جی ہاں میں اس سسٹم کی پیداوار ہوں جس نے مجھے بچپن سے سکھایا کہ تمام عرب ممالک ایک وطن کی مانند ہیں اور شام اور فلسطین اس کا ایک جزو لاینفک ہیں، جس نے مجھے سکھایا کہ مزاحمت حق اور تسلیم ہو جانا خیانت ہے، جس نے مجھے سکھایا کہ اسرائیل اور امریکہ دشمن ہیں، اور آلو کبھی بھی چوزے نہیں دیتا، جس نے مجھے اس وقت امریکہ کے سامنے سر بلند کرنا سکھایا، جس وقت سب عربی راہنماؤں کے سر امریکہ کے جوتوں پہ پڑے رہتے تھے۔

جی ہاں میں اسی سسٹم کی پیداوار ہوں جس نے اس وقت فلسطین اور اہل فلسطین، غزہ اور اہل غزہ کی مدد کی، جب سارے عربوں نے ان کو اسرائیلی ظلم وستم کے آگے تن و تنہا چھوڑ دیا تھا، جن میں سعودی عرب بھی شامل ہے، کہ جہاں مسلمانوں کا دوسرا قبلہ ہے، جی ہاں میں اسی سسٹم کی پیداوار ہوں کہ جس نے لبنان میں اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے ساتھ تعاون کیا، اور اگر اس سسٹم کا تعاون اور مدد نہ ہوتی، تو وہ تحریک اسرائیل کے ساتھ جنگ میں کبھی بھی فتح یاب نہ ہوتی۔

اور یاد رہے کہ حزب اللہ نے امریکہ اور اسرائیل کی طاقت کو اس وقت خاک میں ملایا جب سارے عرب ممالک کی فوجیں ان سے لڑنے سے عاجز تھیں، جی ہاں میں اسی سسٹم کی پیداوار ہوں، جس نے اس وقت کہ جب تین امریکی صدر اور سربراہوں نے شام کا دورہ کیا ایک دفعہ بھی اس سسٹم کا سربراہ امریکی دورے پہ نہیں گیا، حالانکہ اس وقت بعض عربی جمہوری حکومتوں کے سربراہ امریکی صدر جارج بش کے کتے کے ساتھ کھیلنے کے مشتاق ہوتے تھے۔

ہاں میں اسی سسٹم کی پیداوار ہوں جس نے کبھی بھی امریکہ کے صدر کے ساتھ بیٹھ کر نبیذ پینے کی خواہش نہیں کی، اور نہ ہی اس سسٹم کے علماء، فقہاء اور مفتیوں نے اسرائیل کے خلاف فدائی حملے حرام قرار دیئے، جب دوسری طرف اور ملکوں کے مفتیان دین نے شہزادوں اور امیروں کے خلاف احتجاج کرنا حرام قرار دیا تھا۔

جی ہاں میں اسی سسٹم کی پیداوار ہوں جس نے کبھی بھی اپنی عوام کا پیسہ چوری نہیں کیا تاکہ ان پیسوں سے امریکی فیکٹریوں کی معیشت بحال کرے، جس نے کبھی بھی امریکی اقتصادی نظام کو تقویت نہیں دی، جس نے کبھی بھی برطانیہ کے چڑیا گھر کو بچانے کی کوشش نہیں کی، کہ جب وہ مکمل طور پر ختم ہونے جارہا تھا، کیونکہ اس سسٹم نے اس چڑیا گھر کو بچانے کے بجائے اس فلسطینی عوام کی مدد کی جو زوال کی جانب گامزن تھی۔

ہاں میں اسی سسٹم کی پیداوار ہوں جس نے میزائل سسٹم عالمی اور امریکی بدمعاشی کی وجہ سے تھوڑا تھوڑا کرکے ٹکڑوں میں خریدا، لیکن امریکہ سے کبھی بھی اسلحہ نہیں خریدا تاکہ اس کے اسلحے کی فیکٹریوں کو تقویت دے، اور نہ ہی امریکی اسلحہ سے ایک عربی ملک بحرین پر چڑھائی کی، حالانکہ بحرینی عوام سے لڑنے اور ان کو ختم کرنے کے لئے ایک ٹینک کافی ہے،

جی ہاں میں اسی سسٹم کا حصہ ہوں جس نے ہمیشہ ہر جگہ اسرائیل کے اٹیمی پروگرام کے خلاف احتجاج کیا، اس سسٹم کی پیداوار نہیں ہوں جس نے ہیمشہ ایران کے پر امن ایٹمی پروگرام کی مخالفت کی۔ جو لوگ غوطہ شرقیہ میں چھوٹے بچوں کے قتل کا رونا رو رہے ہیں ان کو مکمل حق حاصل ہے، اپنی رائے بیان کرنے کا، اور میں ان کی رائے کا احترام کرتا ہوں۔

لیکن مجھے بھی صرف اتنا کہنے کا حق دیں، کہ میں اس وقت بھی شام میں ہوں یہاں مجھے دس سال ہوگئے ہیں، یہاں کی آبادی کا تقریباً 70 فیصد حصہ ہمارے محترم اھل سنت برادران پر مشتمل ہیں، جن میں ساٹھ فیصد سنی بھائی بشار الاسد سے عشق کرتے ہیں، یہاں کے بڑے بڑے وزیر اہل سنت والجماعت مسلک سے تعلق رکھتے ہیں، یہاں کا وزیر دفاع اور فوج کا سربراہ بھی سنی ہیں، جو اس وقت غوطہ شرقیہ میں آپریشن کی قیادت کر رہے ہیں، کیونکہ اس وقت غوطہ شرقیہ میں پانچ ہزار سے زائد دہشت گردوں نے 200000 کے لگ بھگ آبادی کو یرغمال بنایا ہوا ہے، جو کہ سب کے سب معصوم اور نہتے لوگ اہل سنت والجماعت مسلک سے تعلق رکھتے ہیں، دھشت گرد وھاں سے روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں سویلین آبادی پر راکٹ فائر کرتے ہیں جس سے ابھی تک 500 سے زیادہ لوگ شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت اتفاق سے اہل سنت والجماعت سے تعلق رکھتے ہیں، کیونکہ شیعہ آبادی یہاں دمشق میں برائے نام ہے۔

یہ باتیں صرف اس لئے بتائیں کہ کل ہم سب نے اللہ کو جواب دینا ہے، 

ہو سکتا ہے کسی کو میری بات سے اختلاف ہو، جو کہ اس کا مکمل حق ہے، لیکن یقین جانیے اس وقت ہم سب کا دشمن یعنی شیعہ سنی کا دشمن اسرائیل ہے اور بشار الاسد اس کے سامنے شیر کی طرح ڈٹا ہوا ہے۔

اللہ سب مسلمان بھائیوں کو خوش رکھے، انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستانی چینلز شام کے حوالے سے وہی باتیں نشر کر رہے ہیں، جو اسرائیل اور امریکہ کے چینلز پر آرہی ہیں، کیونکہ میں دونوں طرف کے چینلز کو تواتر کے ساتھ دیکھتا ہوں، اس سے پاکستان میں خوامخواہ میں شیعہ سنی تناؤ پیدا ہو رہا ہے۔

ہمارے سنی بھائی ہمیں اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں، کیونکہ ہماری دشمنی صرف اسرائیل سے ہے اور کسی سے نہیں۔ "

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری