حزب اللہ سے مقابلہ کرنے کیلئے اسرائیلی اسپیشل فورسز اب افغانستان میں تربیت حاصل کریں گے

حزب اللہ سے مقابلہ کرنے کیلئے اسرائیلی اسپیشل فورسز اب افغانستان میں تربیت حاصل کریں گے

اطلاعات ہیں کہ اسرائیلی اسپیشل فورسز کے اہلکاروں کا امریکیوں کے بھیس میں افغانستان میں داخلے کا ہدف شہری جنگوں میں تجربہ حاصل کرنا ہے جو ان کیلئے حزب اللہ کے مقابلے میں کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔

خبررساں ادارے تسنیم کے مطابق اسرائیلی اسپیشل فورسز کے 90 اہلکاروں پر مشتمل اس گروہ کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کو اسرائیل سے باہر اسلامی گروہوں کے خلاف میدانی جنگوں میں مقابلے کی مہارت کے علاوہ عوامی فورسز سے مقابلے کی بھی مہارت حاصل ہے۔

ماسکو سے شائع ہونے والا روزنامہ روسیسکا نے اس حوالے سے خاص اطلاعات نشر کی ہیں۔

روسی روزنامہ نے اس حوالے سے کہا ہے کہ اسرائیل کا اس اقدام سے ہدف یہ ہے کہ شہری جنگوں میں تجربہ حاصل کرے جو کہ حزب اللہ کے خلاف ممکنہ جنگ میں ان کے لئے مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں متعین امریکی فورسز ہیڈکوارٹر کو حکم دیا ہے کہ اتحادی ممالک سے فوجی مشارکت کا طریقہ اپنا لیں۔ اس حکم سے ان کا مقصد اپنے خرچوں میں کمی لانا ہے۔ کیونکہ امریکی اتحادیوں کی اسپیشل فورسز اور کمانڈوز کا خرچہ بلیک واٹر سمیت دیگر امریکی فورسز سے بہت کم ہے۔

خیال رہے کہ اسرائیل اور افغانی اسلامی حکومت کے روابط کا سلسلہ 90 کی دہائی تک تب سے شروع ہوتا ہے جب روسی فورسز اس ملک سے نکلے اور 1996 میں طالبان کے اقتدار میں آنے تک یہ سلسلہ جاری رہا ہے۔

سوویت یونین کے خاتمے کے بعد، اسرائیل نے اپنی مداخلت کی پالیسی جاری رکھتے ہوئے افغان حکام سے رابطے کا آغاز کیا۔ لندن میں چھپنے والا جینز ڈیفنس میگزین اور مشہور اسرائیلی روزنامہ یدیعوت آحارانوت نے اس حوالے سے لکھا ہے: برہان الدین ربانی کے ایک وزیر نے، اسرائیلی وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل سے کسی یورپی ملک کے دارالحکومت میں ملاقات کی تھی۔

جینز ڈیفنس نے زور دیا ہے کہ: اس ملاقات سے اسرائیل کا مقصد افغانستان کے شمال میں الائنس سے دوستی بنانی تھی جو کہ طالبان سے لڑ رہا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ، اسرائیل اور مذکورہ الائنس کے روابط کے سامنے آنے سے پریشان تھا۔ کیونکہ اسے یہ ڈر تھا کہ پاکستان اس پر اعتراض کریگا اور یوں امریکہ جنوبی ایشیا میں اپنے ایک اہم اتحادی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ بہر حال اہم اسرائیلی اہداف میں ایک اہم ہدف یہ تھا کہ جنوبی ایشیا خاص طور پر افغانستان میں اثر رسوخ حاصل کرے۔

امریکہ کے اسرائیل کو افغانی پارٹی سے کھلے عام روابط پر لاکھ منع کرنے کے باوجود، اسرائیل نے اپنی اسپیشل فورسز کے ایک گروہ کو افغانستان روانہ کیا، یہ گروہ جس کا نام 262 تھا، 60 کی دہائی میں تشکیل پایا جو کہ عربی یہودیوں پر مشتمل تھا۔ وہ مسلمانوں اور عربوں کا یونیفارم پہنتے تھے۔ اس آرگنائزیشن کا مقصد عرب نشین علاقوں میں فتنے پھیلانا اور جاسوسی کرنا تھا۔

اسرائیل، سیاسی مشروعیت نہ رکھنے اور سیکیورٹی کے مسائل سے دوچار ہونے کی وجہ سے اپنے انٹیلی جینس اداروں سے وابستہ ہے۔ اسی سلسلے میں موساد اور شین بیٹ اندرونی اور بیرونی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

اسرائیل، الکٹرانک جاسوسی اور ریڈار نصب کرنے کے علاوہ دیگر ذریعوں سے ایران کے مشرق اور پاکستان کے شمال میں زمینی جاسوسی اڈوں کے ذریعے اپنے اسٹرٹیجک مقاصد پانے کی کوشش کرکے ان ممالک پر دباؤ ڈالیگا۔

دوسری جانب، عراقی حکام نے اس حوالے سے پریشانی کا اظہار کیا ہے؛ کیونکہ انہیں بھی یہ خوف ہے کہ اسرائیلی فورسز عراق مین بھی امریکی بھیس میں داخل نہ ہوجائیں۔ کیونکہ با وثوق رپورٹس کے مطابق اسرائیلی فورسز عراق اور کردستانی اڈوں میں بھی داخل ہوچکے ہیں۔

اہم ترین اسلامی بیداری خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری