پاک ایران گیس پائپ لائن؛ نواز حکومت سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دلچسپی نہیں لے رہی


پاک ایران گیس پائپ لائن؛ نواز حکومت سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دلچسپی نہیں لے رہی

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل کے ممبر نے کہا ہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن کی تکمیل میں نواز حکومت کی عدم توجہی ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حکومت اس منصوبے میں دلچسپی کیوں نہیں لے رہی، وہ منصوبہ جس کے فوائد انسانی سوچ سے بھی بالاتر ہیں۔

خبررساں ادارے تسنیم کے نمائندے نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل کے ممبر اور پی ٹی آئی کے رہنما و  ایم این اے شہریار خان کے ساتھ پاک ایران گیس پائپ لائن و دیگر موضوعات پر اہم مکالمہ ترتیب دیا ہے جس کا متن قارئین و صارفین کے پیش خدمت ہے۔

تسنیم نیوز: دو روز قبل وزیر پٹرولیم نے پریس کانفرنس کرکے عوام کو یہ مژدہ سنایا ہے کہ گزشتہ سالوں کی طرح امسال بھی عوام گیس لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے دوچار ہوں گے، تو کیا وجہ ہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ جس کے ذریعے عوام اور کارخانوں کو گیس لوڈ شیڈنگ سے نجات دلائی جا سکتی ہے، پورا نہیں کیا جارہا؟

شہریار خان آفریدی: سب سے پہلے تسنیم نیوز کا شکر گزار ہوں کہ اس اہم ترین موضوع پر موقف بیان کرنے کا موقع دیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت کا صرف یہ کہہ دینا کہ گیس کی پیدوار کم ہو رہی ہے، ہمارا سوال یہ ہے کہ تمام وسائل آپ کے پاس ہیں، آپ (مسلم لیگ نواز) حکومت کر رہے ہیں، کیا آپ نے گیس کی تلاش کے حوالہ سے اقدامات کئے ہیں؟ اگر نہیں کئے تو کیوں نہیں کئے ہیں؟ آئل اینڈ گیس جہاں سے پیدا ہو رہا ہے، وہاں اس کی چوری ہو رہی ہے، اس بہت بڑے میگا کرپشن میں لوگ ملوث ہیں، اس کے خلاف آپ ایکشن کیوں نہیں لے رہے؟

دوسری بات یہ کہ وہ علاقے جن  میں چوری ہو رہی ہے، آپ اس کی بجائے دوردراز علاقوں مثلا کرک، ھنگو اور کوہاٹ تیل کے پیدواری اضلاع ہیں، وہاں سے گیس آپ چودہ سو میل تک لیکر جا رہے ہیں، لیکن وہاں کی لوکل کمیونٹی کو گھریلو استعمال کے لئے بھی نہیں دے رہے۔ آپ جب ان کو ان کا حق نہیں دیتے اور پھر کہتے ہیں کہ چوری ہو رہی ہے۔

آئین کہتا ہے کہ گیس نکلنے کے پانچ کلومیٹر کے احاطے میں وہاں کی عوام کو سب سے پہلے گیس مہیا کی جائے، آپ ان کو گیس نہیں دے رہے اور انہیں کے جائز حق سے ان کو محروم کر رہے ہیں۔ پھر تیل اور گیس کی آمدن میں سو فیصد میں  سے بارہ فیصد وفاق صوبے کو دیتی ہے، جس میں سے دو فیصد چیف منسٹر اپنے پاس رکھتا ہے اور دس فیصد متعلقہ ضلع کو ملتا ہے۔ اب وفاق نے کہہ دیا ہے کہ رائلٹی کی مد میں جتنا پیسہ ہوگا اس سے متعلقہ صوبے میں ترقیاتی اسکیمیں ہوں گی۔ جبکہ قائمہ کمیٹی نے یہ فیصلہ دے دیا ہے کہ صوبائی حکومت کا رائلٹی پر کوئی حق نہیں ہے۔ جب صوبے سے یہ پیداوار ہو رہی ہے، وفاق اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اب جب تمام صوبائی اکائیوں کی بات آتی ہے تو یہ صوبے کا جائز حق ہے۔ اس سے پہلے ہینڈ پمپس کی سیاست کی گئی، ان پر اربوں روپے لگا دیئے گئے، کوئی اسکول، کالج، ہسپتال کا میگا پراجیکٹ نہیں بنایا گیا، جس سے لوکل کمیونٹی کو فائدہ پہنچتا.

اگلی بات یہ کہ جب آپکا ہدف یہ ہو کہ ہم کوئلے کے ذریعے توانائی کی کمی کو پورا کریں گے، آسٹریلیا اور ساؤتھ افریقہ سے کوئلہ منگوائیں گے، جب آپ کے ملک میں ہائیڈل پاور موجود ہے، جو سستا ذریعہ توانائی ہے، اس پر سی پیک میں بھی آپ نے ایک ٹکا سرمایہ کاری نہیں کی ہے، پھر دستیاب ذرائع کو استعمال نہیں کیا جا رہا۔ وہ ادارے جن کاکام ہے کہ توانائی کی کمی پر قابو پانے کے لئے اقدامات اٹھائیں، وہ بھی متحرک نہیں ہیں۔ آپ کے لئے پانامہ اہم ہے، روزانہ تین صاحبان آکر اس پر عدالت سجا لیتے ہیں اور پوری قوم کو گمراہ کرتے ہیں۔

تسنیم نیوز: ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں ایران گیس پائپ لائن معاہدے پر زور و شور سے کام ہوا، نواز حکومت نے آتے ہی اس منصوبے کو ایران پر پابندیوں کا بہانہ بناتے ہوئے کھٹائی میں ڈال دیا، اب جبکہ ایران کا فائیو پلس ون کے ساتھ ایٹمی معاہدہ ہوا، پابندیاں ختم ہو گئیں،  اور ایران اپنے حصے کی پائپ لائن مکمل کر چکا ہے، تو کیا وجہ ہے کہ پاکستان اس منصوبے میں دلچسپی نہیں دکھا رہا؟

شہریار خان آفریدی: دیکھیں یہی رونا ہم رو رہے ہیں، پاکستان کا وزیر خارجہ نہیں ہے، آج ہمارے ہمسایہ ممالک ہم سے دور چلے گئے ہیں۔ دوسری چیز چین نے پاکستان اور ایران کے مابین پل کا کردار ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پاک ایران گیس پائپ لائن میں آگے آنا چاہتا ہے اور اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ پھر ایران نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ سی پیک کا حصہ بننا چاہتا ہے۔ اس سے زیادہ اشارہ وہ کیا دیں، اس میں ہمیں اپنا مفاد کیوں نظر نہیں آرہا، میرے خیال میں جان بوجھ کر نواز حکومت کی جانب سے یہ چال چلی جا رہی ہے۔ چونکہ مودی کے ایجنڈے کو اس ملک میں لایا جارہا ہے تاکہ صرف اور صرف قرض پر یہ ملک چلایا جائے۔ اب پڑوسی ہمسایہ ممالک کے ساتھ ایسے پراجیکٹس کو پایہ تکمیل تک پہنچانا جن سے آنے والی نسلوں کو بے انتہا فائدہ ہوگا، مثلاً پاک ایران گیس پائپ لائن، اس میں آپ کو اتنا فائدہ ہے کہ یہ انسانی سوچ سے بالاتر ہے لیکن نواز حکومت کی عدم توجہی ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حکومت اس منصوبے میں دلچسپی کیوں نہیں لے رہی۔ اخلاص اور ایمانداری کا مظاہرہ حکومت کی جانب سے نظر نہیں آرہا، تو یہ بلین ڈالر کا سوال ہے اور اس کا جواب صرف حکومت ہی دے سکتی ہے۔

تسنیم نیوز: پاکستان تحریک انصاف نے اسلام آباد لاک ڈاؤن کے فیصلے کو یوم تشکر میں بدلا، کیا کامیابی حاصل ہوئی؟ آگے کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟

شہریار خان آفریدی: پانامہ کیس میں ٹی او آرز بہت اہم چیز ہے۔ ہم عدالت سے انصاف کی توقع رکھتے ہیں۔ اب انہوں نے ٹی او آر کا حق پارلیمنٹ کو دے دیا ہے۔ مریم نواز 2013 انتخابات کے مطابق، اپنے والد وزیراعظم نواز شریف کی ذمہ داری میں ہے جبکہ کیپٹن صفدر نے صاف انکار کر دیا ہے کہ ہماری کوئی بیرون ملک کمپنی نہیں ہے جو کہ اب مریم نواز سے مریم صفدر ہو گئی ہیں۔ ڈوشے بینک نے مریم نواز کو اس کیس میں شامل کر دیا ہے۔ اب یہ کسی عالمی سطح پر آگیا ہے۔ کچھ ہفتوں میں یہ حقائق قوم کے سامنے بھی آجائیں گے کہ کس نے قوم کو گمراہ کیا اور قوم کو لوٹنے والے کون ہیں؟ بڑی کامیابی یہ حاصل ہوئی ہے کہ طاقتور کو بھی عدالت کے سامنے جوابدہ بیانا گیا ہے جس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔

اہم ترین انٹرویو خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری