سال 2016؛ پاکستان میں کوئی صحافی قتل نہیں ہوا


سال 2016؛ پاکستان میں کوئی صحافی قتل نہیں ہوا

حالیہ رپورٹ کے مطابق سال 2016 میں پاکستان میں کسی صحافی کو ’فرائض کی انجام دہی‘ کی پاداش میں قتل نہیں کیا گیا۔

خبر رساں ادارے تسنیم نے ڈان نیوز کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ 2001 کے بعد پہلا موقع ہے جب ایک سال کے عرصے کے دوران کوئی صحافی قتل نہیں ہوا۔

دنیا بھر میں آزادی صحافت کے فروغ کے لیے کام کرنے والی آزاد تنظیم "کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس" (سی پی جے) نے اپنی خصوصی رپورٹ میں کہا ہے کہ 15 سال میں یہ پہلا موقع ہے جب پاکستان میں کسی صحافی کو فرائض کی انجام دہی کی پاداش میں قتل نہیں کیا گیا۔

تنظیم نے کسی صحافی کو اس کے کام سے براہ راست تعلق کے باعث قتل کو صحافی کی ٹارگٹ کلنگ قرار دیا، چاہے وہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہو یا بلا ارادہ۔

سی پی جے نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا کہ 1992 کے بعد سے اب تک 33 صحافیوں کو فرائض کی انجام دہی کی پاداش میں قتل کیا گیا۔

تاہم اس صورتحال کے پیش نظر متعدد صحافیوں نے "سنگین خطرات" سے بچنے کے لیے صحافت کے پیشے سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔

پاکستان پریس فاؤنڈیشن کی جانب سے نومبر میں جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ میڈیا ہاؤسز اور صحافیوں کو ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کی جانب سے ناصرف ہدف بنایا جاتا ہے بلکہ دھونس، دھمکی اور ہراساں بھی کیا جاتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’دھمکیوں اور تشدد کے باعث کئی صحافی مجبوراً ان خطرناک علاقوں کو چھوڑ چکے ہیں یا انہوں نے یہ پیشہ ہی چھوڑ دیا ہے اور ایسے صحافیوں کی تعداد متنازع علاقوں میں زیادہ ہے۔‘

قتل اور کراس فائر کے علاوہ سی پی جے ان صحافیوں کی اموات کا بھی ریکارڈ رکھتی ہے جو سیاسی کشیدگی جیسے خطرناک اسائنمنٹ کے دوران ہلاک ہوئے۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق 2016 میں ایسے خطرناک اسائنمنٹس کے دوران کم از کم 3 صحافی ہلاک ہوئے، جن میں سے دو پاکستانی تھے۔

اگست میں کوئٹہ کے سول ہسپتال میں خودکش حملے کے نتیجے میں "ڈان نیوز" کے کیمرہمین محمود خان اور "آج ٹی وی" کے کیمرہمین شہزاد احمد ہلاک ہوئے تھے۔

یہ دونوں کیمرہمین دھماکے کے وقت سول ہسپتال میں موجود تھے اور بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر کے قتل کے خلاف احتجاج کے لیے ہسپتال آنے والے وکلا کی کوریج کر رہے تھے۔

سی پی جے کی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ دہشت گرد گروپ اکثر اس وقت دوسرا حملہ کرتے ہیں، جب پہلے حملے کی جگہ پر لوگ جمع ہوتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ان دوسرے حملوں سے ان صحافیوں کی، جو اکثر جنازے یا پہلے دھماکے کے بعد کی صورتحال کور کر رہے ہوتے ہیں، جانوں کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔

تنظیم نے اپنی پریس ریلیز میں کہا کہ اس کے حملے کے اراکین نے آزادانہ تحقیقات کی اور صحافیوں کے قتل کے محرکات کا جائزہ لیا۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری