شام پر حملہ کیوں؟ فائدہ کس کو ہوا؟ اورمشرق وسطیٰ کا مستقبل؟


شام پر حملہ کیوں؟ فائدہ کس کو ہوا؟ اورمشرق وسطیٰ کا مستقبل؟

 کسی خود مختار ملک پر امریکہ کا یکطرفہ حملہ پہلی بار نہیں بلکہ ویتنام سے لیکر افغانستان، عراق اور لیبیا پر پہلے بھی حملے کرچکا ہے اور جہاں بھی امریکہ گیا ہے وہاں دہشتگردوں کا راج ہے اور وہ ملک ابھی تک تباہ و برباد ہیں۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق جمعہ 7 اپریل 2017 کو امریکہ نے ایک آزاد اور خود مختار ملک شام پر حملہ کردیا۔

شام پر حملے کا حکم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دیا۔ یہ حملہ شام کے شہر حمص کے قریب شعیرات ہوائی اڈے پر کیا گیا اور شام کا یہ علاقہ کئی سال سے دہشتگرد داعش، القاعدہ اور جبہۃ النصرہ سمیت احرار الشام جیسے دہشتگرد تنظیموں کے قبضےمیں ہے جبکہ شعیرات کا ہوائی اڈہ ان دہشتگرد تنظیموں کیخلاف استعمال ہو رہا تھا۔

شام پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام نیا نہیں، ستمبر 2013 میں بھی شام میں کیمیائی استعمال کئے گئے تھے جس کا الزام شامی حکومت پر لگا کر امریکہ حملہ کرنے والا جو روس نے پسپا کردیا۔

بعد میں پتہ چلا کہ سعودی عرب کے بدنام زمانہ پرنس بندر نے القاعدہ کے ہاتھ میں کیمیائی ہتھیار تھمائے تھے جو انہوں نے غلط طور پر استعمال کئے۔

اس مرتبہ بھی امریکہ نے بغیر کسی تحقیق کے شامی حکومت کو صوبہ ادلب کے قریب خان شیخون پر کیمیائی بم گرانے کا ذمہ دار ٹھرایا جبکہ ابھی تک اس کیمیائی حملے کا معمہ حل نہ ہوسکا۔

ایک سوشل میڈیا ویڈیو پر امریکہ کا شام کیخلاف اعلان سمجھ سے بالاتر ہے جبکہ شام دہشتگردی اور خانہ جنگی میں ہلاکتوں کی تعداد چار لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے اور گزشتہ چھ سالوں سے مغرب اپنے کاسہ بدست عرب ملکوں اور ترکی کے ساتھ مل کر دہشتگردوں کو اخلاقی مدد، تمام تر اسلحہ اور افرادی قوت فراہم کررہے ہیں۔

اگر یہ ممالک داعش، القاعدہ، جبہۃ النصرہ اور احرار الشام جیسے دہشتگرد تنیظیموں کی پشت پناہی نہ کرتے تو شامی عرب فوج کب کا اس خانہ جنگی پر قابو پا چکے ہوتے۔

 یاد رہے شامی عرب فوج سعودی عرب یا عرب امارات کی فوج نہیں جو دو سالوں سے یمن میں نہتے عوام پر کلسٹر بم برسا رہے ہیں اور دو ہزار بچوں سمیت بیس ہزار بے گناہ لوگوں کا قتل عام کرچکے ہیں۔

شامی عرب فوج سعودی عرب کی فوج نہیں جو مظلوم اور نہتے بحرینی عوام پر ظالم اور جابر آل خلیفہ کی حکومت مسلط کئے ہوئے ہیں جبکہ شامی فوج صلاح الدین ایوبی کی پیش رو ہے جنہوں صلیبی جنگوں میں بیت المقدس پر اسلام کا پرچم لہرایا تھا۔

جو سعودی عرب نے امریکہ اور برطانیہ سے مل کر دوبارہ سرنگوں کیا ہے اور بشارالاسد اور شامی عرب آرمی کا گناہ ہی یہی ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف اکیلا میدان میں کھڑا ہے۔

اردن، قطر اور بحرین سمیت مصر اور سعودی عرب کے اسرائیل سے تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔

علاقائی طور پر شام پر امریکی حملہ سعودی عرب کو خوش کرنے کیلئے کیا گیا جس کا مقصد بظاہر سعودی عرب کو علاقائی قوت تسلیم کرنا ہے لیکن اس سارے جنگ و جدل کا اصل مقصد غاصب اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔

شام پر امریکی حملہ ایک مکمل پلان کا حصہ ہے جو امریکہ نے سعودی عرب، ترکی اور اسرائیل سے مل کر بنایا ہے، ایک ایسا پلان جس میں اسرائیل کو تحفظ دینے کی مکمل ضمانت دی گئی ہے، ایک ایسا پلان جو مشرق وسطیٰ کو اسرائیل اور سعودی عرب کی جھولی میں ڈالنے کا پلان ہے، اس پلان کے کئی سب پلان بھی ہیں جن میں دہشتگرد تنظیموں کی پشت پناہی اور ہر قسم کی مدد بھی شامل ہے جو اس سامراج کے سامنے ناچے گا نہیں ان کے گلے کاٹنے کی کوشش کی جائے گی جو اس سامراج کی حکم عدولی کرے گا  ان کو خودکش بم دھماکوں سے ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

اس پلان کے مطابق بحرین پر سفاک آل خلیفہ کی حکمرانی جاری رکھنے کی کوشش کی جائے گی اور اس پلان کے مطابق یمن پر سعودی عرب اور امریکہ کا پٹھو بٹھائے جانے کی کوشش کی جائے گی۔

سامراج کے اس گھناؤنے پلان کا ایک منصوبہ پاکستان کے حالیہ ریٹائرڈ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں نام نہاد اسلامی اتحادی فوج کا قیام بھی ہے جو پاکستان سے طالبان کی فوج بن کر ان دہشتگرد کارروائیوں کیلئے بطور ایندھن استعمال کیا جائے گا۔

یہ اسلامی ملکوں کا فوجی اتحاد نہیں بلکہ اسے سنی مسلمان ملکوں کا فوج کہنا بجا ہوگا کیونکہ اس میں ایران اور عراق جیسے شیعہ ممالک کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔

سعودی عرب معاشی طور پر دیوالیہ پن کی طرف گامزن ہے اور ملک کی معاشی ترقی کا پہیہ مکمل طور پر رک گیا ہے، سعودی عرب میں پہلی مرتبہ ٹیکس لگانے پڑے ہیں اور حج و عمروں کے ویزوں پر پیسے وصول کرنا شروع کئے جبکہ پہلے مفت فراہم کئے جاتے رہے۔ سعودی آرامی کے شئیرز بیچنے کی تمام تر انتظامات مکمل کئے گئے ہیں۔

نائب ولی، والی العہد اور وزیر دفاع کو کہ ایک نا تجربہ کار شہزادہ ہے باپ ملک سلمان کی وجہ سے تمام سیاہ اور سفید کا مالک بن بیٹھا ہے اور دوسرے قابل ترین شہزادے محمد بن سلمان کے نخرے برداشت کررہے ہیں۔

شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے اپ کو منوانے کیلئے غریب عرب ملک یمن پر حملہ کرکے سعودی عرب کو دلدل میں پھنسایا ہے جس سے نکلنا اب دشوار نظر آ رہا ہے۔

امریکی جنگی مشینری اور حملوں کی عربوں ڈالر بل ریاض برداشت کرے گا اور جس میں قطر، امارت اور بحرین بھی اپنا حصہ ڈالیں گے۔

جب کنگال ہوجائیں گے تو امریکہ 9/11 دہشتگرد حملوں کا پنڈورا باکس کھول کر سعودی عرب کے خلاف کارروائی کرے گا کیونکہ 9/11 حملوں کے اکثر دہشتگرد سعودی عرب سے تعلق رکھتے تھے جبکہ القاعدہ کے لئے سب سے بڑے مالی سہولت کار سعودی عرب کے موجودہ فرمانروا شاہ سلمان رہے ہیں۔

اندرونی اور بیرونی دباو سعودی عرب کو پریشان کررہا ہے اور اس پریشانی میں سعودی عرب یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ کس طرح پستی میں گرتا جا رہا ہے۔

 داعش اور القاعدہ کے ذریعے اسلام کا چہرہ مسخ کرنے کے بعد خانہ کعبہ کو سیاست میں گھسیٹا جا رہا ہے اور امام کعبہ کا دورہ پاکستان اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

شام پر امریکی حملے کا سب سے زیادہ سیاسی فائدہ امریکی صدر ڈنلڈ ٹرمپ کو ہوا ہے۔ امریکی صدر انتخابات میں جیتنے کے باوجود پینٹاگون سمیت امریکی اسٹیبلشمنٹ کیلئے ناقابل قبول تھے اور امریکہ میں احتجاج کا دائرہ وسیع تر ہوتا جارہا تھا۔

ٹرمپ کو ذہنی مریض کہا جا رہا تھا، ٹرمپ کو روسی ایجنٹ کہا جارہا تھا، انتہائی فحش شخص تصور کیا جارہا تھا اور سب سے اہم بات یہ کہ تاریخ میں پہلی بار کسی امریکی صدر کو انتخابات جیتنے کے باوجود نااہل سمجھا جا رہا تھا۔

امریکی انتخابات کے صرف 77 دن بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے ان سارے الزامات سے جان چھڑانے اور اسٹبلیشمنٹ کے سامنے قابل قبول بنانے کیلئے شام کے شعیرات ہوائی اڈے پر ساٹھ کروز میزائل برسائے اور نتیجتاً اب ٹرمپ حقیقی معنوں میں امریکی صدر بن گئے۔

 اس سے پہلے امریکہ کے کسی حلقے نے ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر نہیں مانا تھا تاہم شام پر حملے نے ٹرمپ کے سارے مسائل حل کردئے اور اب وہ شمالی کوریا یا کسی بھی ملک پر بغیر کسی ثبوت کے، بغیر اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے ایک سوشل میڈیا کے جعلی ویڈیو کو بہانہ بنا کر پر حملہ کر سکتا ہے۔

امریکہ کے ساٹھ میزائلوں میں سے صرف چند ہدف تک پہنچ پائے تھے جبکہ باقی میزائلوں کو روس کی طاقتور ترین دفاعی نظام نے ہدف تک پہنچنے نہ دیا، جس سے روس کی عالمی سطح پر طاقت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

 روس اب امریکہ کے سامنے کھڑا نظر آ رہا ہے اور مستقبل میں امریکہ مجبور ہو کر روس اور ایران کیساتھ بات چیت کیلئے مجبور ہوگا۔

مشرق کا نقشہ واشنگٹن میں بنانے والے اس وقت حیران اور پریشان نظر آئے جب روسی صدر ولادمیر پوٹین اور ایرانی صدر حسن روحانی نے شام پر امریکی حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے سٹریٹیجک غلطی قرار دیا اور آئندہ اس طرح حملہ کرنے کی صورت میں تباہ کن نتائج کی دھمکی دے دی۔

روسی بحری بیڑے مشرق وسطیٰ کے پانیوں میں داخل ہوچکے ہیں اور ایران تیس سال سے مکار دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوا ہے۔

 

نوٹ: زیر نظر مضمون مصنف نے اپنے نقطہ نظر سے لکھا ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے، تو قلم اٹھائیں اور اپنے ہی الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ ہمیں ای میل کریں ای میل ایڈریس: tasnimnewsurdu@gmail.com آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری