وہ حق رکھتا تھا ۔۔۔۔۔


وہ حق رکھتا تھا ۔۔۔۔۔

آخر یہ کون خوش نصیب تھا جس کیلئے یہ ہزارہا لوگ اپنا کام کاج گھر بار چھوڑ کر صبح سے جمع تھے، فرط محبت سے ان کے چہرے دمک رہے تھے اور آنسو تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔۔۔ وہ حق رکھتا تھا کہ ایسا فقید المثال استقبال کیا جائے۔۔۔ اور کیوں نہ ہوتا۔۔۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: 26  ستمبر   2017 کی سہانی صبح تھی۔ موسم خزاں کی پہلی بارش سےصحن  انقلاب بھیگا ہوا تھا ۔۔۔۔ مگر اس  سے زیادہ   ان  ہزاروں  لوگوں  کی آنکھیں  بھیگی  ہوئی  تھیں  جو   اپنے جذبات حزیں کا اظہار کرنے کیلئے اس صحن میں  موجود  تھے۔ آنکھوں میں  آنسوئوں کا سیل رواں  لئےتاحد نگاہ  لوگ ہی لوگ تھے۔۔۔ وسیع و  عریض  صحن انقلاب ِحرم مطہرامام رضا علیہ السلام اور  اس  سے  ملحق دوسرے  صحنوں  میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ وہاں ہزاروں  سوگوار  نمناک  آنکھوں  میں درد  و الم اور بے قراری  کی شدت  لئے ایک شہید سربریدہ کو  آنسوؤں  کا نذرانہ پیش کرنے   کیلئے موجود تھے۔۔۔ ان سوگواروں کی آنکھوں میں  شہید  کے عزم  و استقامت کو خراج پیش کرنے کیلئے  عقیدت کی شمعیں  فروزاں تھیں ۔۔۔

وہ صبح  سے  ہی  اس  شہید  کے  منتظر  تھے۔ جب  شہید  کا  جنازہ   ائرپورٹ  پر  جہاز  سے  اتار کر  حرم مطہر  کی جانب ایک  قافلے کی صورت  لے جا یا  جارہا تھا اس وقت  سڑکوں  پر   اس  شہید  کی تصویریں  لئے  اور  گاڑیوں   پر  اس  کے پوسٹر  چپکائے لوگ اپنے  ہیرو  کا والہانہ استقبال  کر رہے تھے۔۔

 اور  اب جیسے ہی ان کی نگاہوں کے سامنے شہید کا جنازہ لایا گیا۔۔۔  ہزاروں  انسانوں کی آنکھوں میں برسات کی جھڑی لگ گئی تھی۔۔۔عقیدت مند  پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے ۔ ہر آنکھ اشکبار تھی اور ہر حساس دِل فگار تھا۔۔

آخر  یہ کون خوش  نصیب  تھا  جس  کیلئے یہ ہزارہا لوگ اپنا کام کاج گھر بار چھوڑ کر یہاں صبح سے جمع تھے، فرط محبت  سے ان  کے چہرے دمک رہے تھے اور  آنسو تھے کہ  تھمنے کا نام ہی نہ لیتے  تھے۔۔۔

یہ سب لوگ ایک شہید سر بریدہ  کے جنازے  کی ایک جھلک دیکھنے کے منتظر تھے ۔۔۔ایک ایسا جوان جو  بہت کم عرصے کے لئے جیا ،لیکن جتنا جیا، سر اٹھا کر  جیا۔حتیٰ  اپنےزبح   ہونے  کے وقت  تک   یہ سر  اٹھائے   اسلام   دشمنوں   کی  آنکھوں  میں   آنکھیں  ڈالے استقامت کی چٹان  بنے   کھڑا  تھا۔  

موت ان ظالم درندوں کو آتی ہے جو شہید کے لہو سے اپنا ہاتھ رنگتے ہیں۔ ۔۔محسن  حججی صرف پچیس   سال کی زندگی میں طویل عمر جینے والوں کو جینے کا انداز سکھا گیا۔۔۔۔ زندگی کی تلاش میں رہنے والے لوگ بہت جلد مر جاتے ہیں مگر  شہادت  کی  آرزو  رکھنے  والا   شہید   حججی کم عمری میں  شہادت پا کر ہمیشہ کے لئے امر ہو گیا اور دوسروں کیلئے حجت بن گیا۔

  اس نے فولادی عزم کے ساتھ کاروان سید شہدا ء علیہم السلام  کے راستے  کو اپنایا   ،   محمد(ص)   و آل محمد علیہم السلام کی راہ کو کرامت جانا  اور  اس   فانی دنیا  سے  ابدی دنیا میں منتقل  ہونے کیلئے سب سے بہترین راہ ،  شہادت کا انتخاب کیا۔

مجھ   جیسے  ایک عام شخص  کی  زندگی تو ریگ ساحل پہ لکھی وقت کی تحریر کے مانند ہے  کہ سیل زماں کی موجوں کے ایک تند و تیز تھپیڑے کی دیر ہے اس کے بعد زندگی کے سب سلسلے عنقا ہو جاتے ہیں  اور پھر ہم   قبرستان کے مہیب سناٹوں میں گم  ہوجاتے ہیں مگر   شہید حججی  مرنے کے بعدہمیشہ  کیلئے زندہ   ہوگیا۔۔۔  

وہ  حق  رکھتا  تھا کہ ایسا فقید المثال استقبال کیا جائے۔۔۔۔ اور کیوں نہ ہوتا ۔۔۔ بقول شاعر

اڑا کر لے گئی جنت کی خوشبو جن کو گلشن سے
انہی پھولوں کا مسکن کیوں نہ دل کی آرزو ٹھہرے

وہ  حق  رکھتا  تھا  کہ  اس کے جنازے کی ایک  جھلک دیکھنے کیلئے سڑکوں پر جوان، بچے، بوڑھے، خواتین اس کے پوسٹر لئے والہانہ انداز میں کھڑے ہوں۔۔۔  وہ  حق  رکھتا  تھا  کہ  اسے رہبر  انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای، اسلامی اور انقلابی تربیت کا عملی نمونہ قرار  دیں  اور کہیں  کہ شہید محسن حججی   انقلابی فکر کے نمود کی ایک درخشاں مثال ہیں۔۔۔ نیز  یہ  بھی  کہیں کہ ایک ایسی دنیا میں جہاں ذہنوں کو منحرف کرنے والے لاتعداد صمعی و بصری دریچے کھلے ہوئے ہیں، شہید محسن حججی اسطرح سے ابھر کر آئے کہ ہم سب کے سامنے ایک حجت اور دلیل بن گئے۔

واقعی  وہ حق رکھتا تھا۔۔۔۔۔ ایک  مدافع حرم جس   نے کربلا کی شیر دل خاتون، ثانی زہرا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نواسی حضرت زینب سلام اللہ علیھا  کے روضہ مبارک کے دفاع کے سلسلے میں عشق و وفا کی عظیم داستان رقم کرکے ایک بار پھر دنیا کو محو حیرت کردیا ۔۔۔۔    شہید محسن حججی نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی طرح دشمنوں کے سامنے سرجھکایا نہیں بلکہ سرکٹا کر کربلا والوں کے قافلے میں شامل ہوگیا۔

جبھی  اس  کا اسقدر   فقید المثال استقبال دیکھ کر  بے اختیار یہ مصرعہ لبوں پر آگیا۔۔۔

 صلہِ شہید کیا ہے تب تاب جاودانہ

خدا کے مخلص بندے شہادت کی آرزو کرتے ہیں کیونکہ اپنے پیمان پرجو انھوں نے اپنے معشوق سے باندھا اس سے برتر گواہی ہو نہیں سکتی ،خوشا نصیب ان کا کہ جنھوں نے اپنے وعدے کا پاس رکھا اور استقامت کے ساتھ  اپنی جان ، جان آفریں کے سپرد کی۔

 شہید محسن حججی  گذشتہ  ماہ عراق اور شام کی سرحد کے قریب دہشتگرد تکفیری گروہ داعش کے ہاتھوں اسیر بنا لیے  گئے  تھے  اور اس کے دو روزبعد اس دہشتگرد گروہ نے انہیں  بہیمانہ طور  پر زبح  کر کے شہید کردیا تھا  اور ان  کا  سر  کاٹ  کر  جسد  کو  آگ  لگا دی تھی۔

شہید کی اسیری اور شہادت  کی  جو تصاویر اور ویڈیو ز  داعشی دہشت گردوں نے اپنی بربریت کی دھاک بٹھانے کیلئے اپنے سوشل میڈیا پر شائع کیں، ان کو دیکھنے والوں نے دیکھا کہ کسی قدم پر بھی شہید حججی کے قدم نہیں ڈگمگائے اور سر نیچے نہیں ہوا، ہر قدم  و ہ چٹان کی طرح مضبوط اور ثابت قدم رہے، ان تصاویر اور ویڈیو کلپس سے  داعش کی درندگی  کے مزید ثبوت تو لوگوں کو ملے تاہم دھاک شہید حججی  کی شجاعت کی بیٹھی۔

26 ستمبر کو  مشہد مقدس  میں حرم مطہر  امام رضا علیہ السلام میں  اس  شہید کی تشیع جنازہ ہوئی۔۔۔  یہاں  پر حرم مطہر  امام رضا (ع) کے  متولی محترم آیت اللہ سید ابراھیم رئیسی نے اپنے تعزیتی  بیان میں   کہا کہ  بے شک ہمارا عزیز شہید’’ محسن حججی‘‘ اصحاب امام حسین(ع) کا ایک  نمونہ ہے۔ اس عظیم شہید کا سیروسلوک تھا  جس نے اسے شہادت کے آخری لمحات تک سرو کی طرح شقی ترین انسانوں کے سامنے استوار رکھا۔ ۔۔    عاشورائیوں کا خون امام راحل  اورمقام عظمای ولایت کے شاگردوں میں جاری وساری ہے اور  ان  کی  فکر  مقاومت  جو کہ  اسلامی انقلاب سے لی گئی  ہے  ہمیشہ کے لئے تاریخ میں آئیڈئل اور نمونہ  رہے گی۔

27 ستمبر بروز بدھ تہران میں اس شہید کی تشیع جنازہ  کی گئی اور گزشتہ روز جمعرات کو ان کی تشیع  جنازہ  اصفہان میں کی گئی پھر ان  کے پیکر پاک کو  ان کے آبائی شہر  نجف آباد کے گلزار شہداء میں سپرد خاک کردیا گیا۔

محسن حججی کی  مظلومانہ شہادت نے دنیا کے سامنے ایک بار پھر حضرت امام حسین علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت کو نمایاں کردیا۔ شہید محسن حججی نے دنیا پر واضح کردیا ہے کہ یزیدیت کا مقابلہ کرنے کے لئے آج بھی حسینی راہ  پر  چلنے والے  جوان اپنا سرکٹانے کے لئے آمادہ ہیں۔ ان کی شہادت کے بعد  تکفیری دہشت گردوں کے خلاف مسلمان نو جوانوں کے خون میں نئی حرارت اور نیا جوش و ولولہ پیدا ہوگیا ہے۔

بیشک  محسن حججی کا سفاکانہ قتل خطے  میں بالخصوص  عراق  اور شام  میں  ناپاک دہشت  گردوں کی بربریت اور  استعماری  ممالک  کی پشت پناہی سےہونے والے شیطانی مظالم کا حصہ ہے۔۔۔ ایسی ہولناک کاروائیاں اور ان بے لگام دہشت گردوں کی بربریت میں استعماری قوتیں امریکہ، مغربی ریاستیں اور خطے میں موجود  ان کے حواری عرب  ریاستیں ہیں  جن کی جانب سے دہشتگردوں  اور تکفیری گروہوں کی مالی معاونت اور ہتھیاروں کی  فراہمی کی سلسلہ جاری ہے۔

 تاہم اسلامی امت  اور  محور  ِمقاومت کے آزاد اور بصیرت رکھنے والے انقلابی جوان اس شہید عزیز کو بہادری و مقاومت کے تمام میدانوں کے لئے آئیڈیل قرار دیتے ہوئے پہلے سے بھی زیادہ ولولے کے ساتھ اس راستے کو جاری رکھیں گے اور باطل کی مکمل نابودی تک پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری