ایم کیوایم لندن کے سابق ڈپٹی کنوینئر حسن ظفر عارف کی لاش برآمد


ایم کیوایم لندن کے سابق ڈپٹی کنوینئر حسن ظفر عارف کی لاش برآمد

متحدہ قومی موومنٹ لندن کے سابق ڈپٹی کنوینر حسن ظفر عارف کی لاش ابراہیم حیدری میں گاڑی سے برآمد ہوئی ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق ایم کیوایم کے سابق ڈپٹی کنوینر کی لاش جناح اسپتال منتقل کردی گئی ہے۔ایم ایس جناح اسپتال ڈاکٹر سیمی جمالی نے بتایا کہ حسن ظفرعارف کی لاش جناح اسپتال لائی گئی ہے۔

اب تک نے رپورٹ دی ہے کہ ڈاکٹر سیمی کے مطابق وجہ موت پوسٹ مارٹم کے بعد پتہ چل سکے گی۔

حسن ظفر عارف کون تھے؟

حسن ظفر عارف نے ایم کیو ایم لندن میں 15 مئی2016 کو ایم کیو ایم میں شمولیت اختیارکی اس سے قبل ان کا متحدہ قومی موومنٹ سے کبھی واسطہ نہیں رہا۔

بائیس اکتوبر دو ہزار سولہ کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پریس کلب کے باہر سے ایک بار پھر کراچی یونیورسٹی کےایک سابق پروفیسر کو گرفتار کیا، اسی کی مظاہرے اودوہزار سولہ میں پریس کلب سے گرفتار کئے گئے شخص کا نام ڈاکٹر حسن ظفرعارف تھا جسے نئی نسل کے لوگ بہت کم جانتے ہیں۔

انہیں بائیس اکتوبر دو ہزار سولہ کو کراچی پریس کلب سے اس وقت گرفتار کیا گیاتھا جب وہ ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی لندن کے عبوری رکن کی حیثیت سے پریس کانفرنس کرنے آرہے تھے۔

حسن ظفر عارف کا ایم کیو ایم سے تعلق محض چھ ماہ کا تھا انہوں نے پندرہ مئی دو ہزار سولہ کو ایم کیو ایم میں شمولیت اختیار کی اس سے قبل ان کا متحدہ قومی موومنٹ سے کبھی واسطہ نہیں رہا مگر پروفیسر کے بارے میں یہ بات زد عام ہے کہ یہ زندگی بھر بائیں بازو کے نظریات کا پرچار کرتے رہے۔

بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہونگے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی پہلی بار وطن واپسی کی تحریک کو کامیاب بنانے میں اہم کردار اداکرنے والوں میں پروفیسر حسن ظفر کا نام سر فہرست تھا جنہوں نے پس پردہ رہتے ہوئے بی بی کی واپسی میں اہم کردار ادا کیا۔انیس سو پچاسی میں دائیں بازو کے نظریات رکھنے کی پاداش میں انہیں کراچی یونیورسٹی سے نکال دیا گیا تھا

بائیس اگست دو ہزار سولہ کو ایم کیو ایم میں آنے والے زلزلے اور تئیس اگست کو قائد ایم کیو ایم سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد  ایم کیو ایم پاکستان معرض وجود میں آئی تو اس کے بعد ایم کیو ایم لندن کو کراچی میں اپنے نئی ساتھی کی تلاش تھی جسے ڈاکٹر حسن ظفر عارف کی صورت میں پورا کردیا گیا انہوں نے لندن کی عبوری رابطہ کمیٹی میں شمولیت اختیار کی لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پروفیسر نے اپنے شاگرد کی جماعت سے ہی وابستہ ہونے کی کیوں ٹھانی جس کی پاداش میں انہیں جیل بھی جانا پڑ گیا۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری