نقیب اللہ کو ’جعلی انکاؤنٹر‘ میں مارا گیا، تحقیقاتی کمیٹی کا انکشاف


نقیب اللہ کو ’جعلی انکاؤنٹر‘ میں مارا گیا، تحقیقاتی کمیٹی کا انکشاف

سینئر پولیس افسران پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی نے انکشاف کیا ہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نقیب اللہ محسود کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے ماورائے عدالت ’جعلی انکاؤنٹر‘ میں ہلاک کیا۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق باوثوق ذرائع نے ڈان کو بتایا ہے کہ اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی کمیٹی نے سندھ پولیس کو جمع کرائی گئی اپنی ابتدائی رپورٹ میں یہ بھی کہا کہ 27 سالہ نوجوان میں عسکریت پسندی کا بھی کوئی رجحان نہیں تھا۔

دو روز کی تحقیقات کے دوران، جس میں مبینہ انکاؤنٹر کے مقام کا معائنہ بھی شامل تھا، کمیٹی کو فائرنگ کے تبادلے کے کوئی شواہد نہیں ملے جس کے باعث کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ نسیم اللہ، جسے نقیب اللہ محسود کے نام سے جانا جاتا تھا، ایک حوصلہ مند نوجوان تھا جس کا عسکریت پسندی یا جرائم میں ملوث ہونے کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔

سندھ پولیس کے شعبہ انسداد دہشت گردی کے آئی جی پی ڈاکٹر ثنااللہ عباسی کی سربراہی میں قائم تین رکنی کمیٹی دو روز قبل تشکیل دی گئی تھی، جسے پولیس کے مبینہ انکاؤنٹر کی تحقیقات کا ٹاسک سونپا گیا تھا۔

قبل ازیں تحقیقاتی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں راؤ انوار احمد کو سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔

تحقیقاتی کمیٹی کے ابتدائی نتائج سے واقف ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ تحقیقات کے دوران کمیٹی اراکین نے نیشنل ہائی وے سے باہر شاہ لطیف ٹاؤن میں مبینہ انکاؤنٹر کے مقام کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے فائرنگ کے مبینہ تبادلے میں حصہ لینے والے ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاؤن امان اللہ مروت سمیت 6 پولیس اہلکاروں کے بیانات ریکارڈ کیے۔

ایس ایچ او نے کمیٹی اراکین کو بتایا کہ پولیس پارٹی خفیہ اطلاع پر علاقے میں ٹارگٹڈ کارروائی کر رہی تھی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ تحقیقاتی کمیٹی کو معلوم ہوا کہ جس مقام پر مبینہ انکاؤنٹر کیا گیا وہ ایک ویران پولٹری فارم تھا۔

اپنے بیان میں ایس ایچ او امان اللہ مروت نے دعویٰ کیا کہ جب انہوں نے مشتبہ دہشت گردوں کے ٹھکانے کا محاصرہ کیا تو ان کی جانب سے حملہ کیا گیا، جس کے بعد فائرنگ کے تبادلے میں 4 مشتبہ دہشت گرد ہلاک ہوئے جن میں سے ایک کی شناخت نقیب اللہ محسود کے نام سے ہوئی۔

ذرائع نے انکشاف کیا کہ پولٹری فارم کے مکمل معائنے کے بعد تحقیقاتی ٹیم اس نتیجے پر پہنچی کہ انکاؤنٹر ’جعلی‘ اور ’من گھڑت‘ تھا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ کمیٹی اراکین کو پولٹری فارم کے اندر گولیوں کے کوئی نشانات نہیں ملے، بلکہ فارم کے کمرے اور دیواروں پر فائرنگ کے مختلف نشانات تھے جنہیں کمیٹی اراکین نے ’واقعے کے بعد ڈالے جانے والے اور جھوٹے نشانات‘ قرار دیا۔

تحقیقاتی کمیٹی کو ایسے بھی کوئی شواہد نہیں ملے سے جس سے یہ معلوم ہو کہ پولیس پارٹی پر پولٹری فارم کے اندر سے حملہ کیا گیا۔

کوئی عسکریت پسندی کا رجحان نہیں تھا

یہ بات واضح ہونے کے بعد کہ انکاؤنٹر ’جعلی‘ تھا، تحقیقاتی کمیٹی نے نقیب اللہ محسود سے متعلق بھی معلومات حاصل کیں۔

ذرائع نے کہا کہ کمیٹی اراکین کا کہنا تھا کہ نقیب اللہ کی پروفائل اور سوشل میڈیا پوسٹس سے عسکریت پسندی کا کوئی رجحان نہیں پایا گیا۔

اراکین نے کہا کہ مقتول بظاہر ایک خوشگوار زندگی گزار رہا تھا جس نے اپنے مستقبل کے مقاصد بھی طے کر رکھے تھے۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری