سابق "را" سربراہ کا حکومت سے پاک آرمی چیف کو دورہ بھارت کی دعوت کا مطالبہ


سابق "را" سربراہ کا حکومت سے پاک آرمی چیف کو دورہ بھارت کی دعوت کا مطالبہ

بھارتی خفیہ ایجنسی "را" کے سابق سربراہ نے اپنی حکومت سے پاک بھارت مذاکرات کے نئے آغاز کے لیے پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو مدعو کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق بھارتی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ اے ایس دولت نے بھارتی حکومت کو تجویز دی ہے کہ وہ پاک بھارت مذاکرات کے نئے آغاز کے لیے پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو مدعو کرے۔

یہ بات انہوں نے اپنی کتاب کے اجراء کے موقع پربھارتی نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

"دا سپائی کرونیکل: را آئی ایس آئی اینڈ دا الیوژن آف پیس" نامی تصنیف، پاکستان خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی اور بھارتی ہم منصب نے مشترکہ طور پر تحریر کی ہے، لیکن جنرل اسد درانی کتاب کے اجراء کی تقریب میں بھارتی ویزا نہ ملنےکے سبب شرکت نہیں کر سکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپنی گفتگو میں اے ایس دولت کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں سفارتی اور دفاعی میدان میں نئے زاویے آزمائے جارہے ہیں، کچھ دن قبل تک کون سوچ سکتا تھا کہ امریکی صدر ڈٖونلڈ ٹرمپ شمالی کوریا کے سپریم لیڈر سے بات کرنے پر آمادہ ہوجائیں گے۔

اسی طرح ہمیں بھی عمومی سوچ سے ہٹ کر دیکھنا ہوگا جیسا کہ سابق بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کہا کرتے تھے کہ جنرل باجوہ کومدعو کیا جائے اور پھر نتائج دیکھیں۔

مصنفین نے دونوں ممالک کے عوام میں باہمی تعلقات کو بہتر بنانا نسبتاً آسان قرار دیا جس میں ویزا میں نرمی اور کرکٹ کی بحالی شامل ہے۔

پاکستان میں موجود جنرل درانی نے بھارتی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ مصر کے شہر شرم الشیخ میں پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور اور ان کے بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ کے مابین ہونے والی ملاقات ایک نئی سمت کا آغاز تھا جسےدونوں ممالک کی بیوروکریسی نے پنپنے نہ دیا۔

دہشت گردی کے خلاف مشترکہ میکانزم کے قیام کا معاہدہ دونوں ممالک کے لیے بڑی کامیابی ہوتا پر افسوس ایسا ہو نہ سکا۔

علاوہ ازیں بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق جنرل درانی نے کتاب میں بھارتی قومی سلامتی مشیر برائے وزیراعظم، اجیت ڈوول کا پاکستان کے حوالے سے تجربہ بیان کرتے ہوئے لکھا کہ ان کا ماننا تھا کہ پاکستان سے صرف طاقت کے زور پر نمٹا جاسکتا ہے۔

واضح رہے اجیت دوول بھارتی خفیہ ایجنسیوں کا حصہ رہے اور 2005 میں ریٹائر ہوئے تھے، ان کے بارے میں جنرل درانی نے بتایاکہ انہوں نے پالیسی میں تبدیلی نہیں کی ان کا سخت موقف اب بھارتی پالیسی کا حصہ ہے، وہ صرف ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح چیختے چلاتے اور بیانات دیتے ہیں اصل میں وہ مرچ مصالحہ لگاتے ہیں۔

جنرل درانی نے کتاب میں مزید لکھا ہے کہ اجیت دوول آج کل اس لیےاہم ہیں کیوں کہ نریندر مودی اہم ہے، وہ تماشا لگانے کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، میں ان پر دونوں ممالک کے تعلقات بہتر بنانے کے لیے بھروسہ نہیں کرسکتا، اگر وہ لاہور یا اسلام آباد میں پائے گئے تو وہ بھارت کے تو مفاد میں ہوگا لیکن پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے لیے بہتر نہیں ہوگا۔

اس ضمن میں جنرل درانی نے بھارتی قومی سلامتی کے مشیر کی پاکستان کے 6 سابق ہائی کمشنرز کے ساتھ ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2016 میں ہونے والی اس ملاقات میں 6 پاکستانی ہائی کمشنرز کو مدعو کیا گیا جس کا خیال تھا کہ یہ ملاقات خوشگوار ماحول میں ہو گی.

تاہم اجیت دوول کا ان کے ساتھ رویہ خاصہ کرخت تھا انہوں نے ہائی کمشنرز کو مخاطب کر کے کہا کہ ہم آپ پر نظر رکھیں ہوئے ہیں اگر ہماری تحقیقات میں کوئی مثبت پہلو سامنے نہیں آیا اور اگر ہمیں پٹھان کوٹ، ممبئی حملوں کے ساتھ کسی ریاستی کارروائی کی کڑی ملی تو اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔

جنرل درانی نے مزید بتایا کہ ملاقات کے اختتام میں وہ بغیر کسی سے ہاتھ ملائے چلے گئے جو کہ سفارتی روایت کا حصہ ہوتا ہے، اس سے ان کے عزائم کا اظہار ہوگیا۔

تاہم اس حوالے سے اے ایس دولت نے مختلف موقف دیا اور انہوں نے بتایا کہ میں نے جو دہلی میں سنا وہ اس سے مختلف تھا جو آپ بتا رہے ہیں، اجیت دوول کے سخت گیر رویے کے برعکس ملاقات میں ان کا غیر متوقع طور پر نرم رویہ دیکھ کر ہائی کمشنرز خاصے حیران ہوئے تھے ۔

مزید گفتگو کرتے ہوئے پاکستان میں پکڑے گئے بھارتی جاسوس کلبھوشن کے بارے میں ایس کے دولت کا کہنا تھا کہ اگر وہ را کا ایجنٹ تھا اور یہ آپریشن را کا تھا تو یہ خاصہ بودا آپریشن تھا۔

اہم ترین دنیا خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری