ایران کے خلاف امریکہ کی نئی حکمت عملی؛ بارہ نکات یا خیالی پلاو !!!


ایران کے خلاف امریکہ کی نئی حکمت عملی؛ بارہ نکات یا خیالی پلاو !!!

امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے 21مئی کو ہیریٹیج فاؤنڈیشن میں کی جانے والی تقریر کو ایران کے خلاف نئی امریکی اسٹریٹجی یا حکمت عملی سے یاد کیا جارہا ہے ۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: اس تقریر میں ان کاکہنا تھا کہ "اگر ایران ان 12 شرائط کو نہیں مانتا تو پھر تاریخ کی بدترین اقتصادی پابندیوں کے لئے تیار ہوجائے۔"

گرچہ اس تقریرمیں مائیک پومپیو نے اپنی جانب سے جس انداز میں بات کی اس سے وہ یہ ظاہر کرنا چاہ رہا تھا کہ گویا ایران کے ساتھ ان بارہ شرطوں پر درپردہ بات چیت جاری ہے۔

اگر ان بارہ شرطوں کو بغور دیکھا جائے تو ان میں سے بہت سی باتیں نہ صرف غیر منطقی ہیں بلکہ زبردستی تھونپنی والے بے بنیاد الزامات دکھائی دیتی ہیں جبکہ بعض دیگر انتہائی غیر سنجیدہ قسم کی باتیں۔

ہم ذیل میں ان تمام شرائط کو صرف اس خیال سے لکھ رہے ہیں تاکہ قارئین کو اندازہ ہو کہ امریکہ خطے میں گذرنے والی صورتحال کو اپنے حق میں کرنے کے لئے کس انداز سے اس محاذ میں کود رہا ہے۔

بارہ شرائط:

ایران آئی اے ای اے کو اپنے فوجی مقاصد کے جوہری پروگرام کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ دے اور ہمیشہ کیلئے اس جوہری پروگرام کو بند کردے۔

یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ ایران کسی بھی قسم کا کوئی عسکری جوہری پروگرام رکھتا ہی نہیں ہے، خود آئی اے ای اے نے کئی بار اس کے بارے میں رپورٹس دی ہیں۔

یورینیم افزودگی کو مکمل روکے اور پلاٹونیم ریفریسنگنگ کی طرف نہ جائے اور بھاری پانی کی تمام تنصیبات کو بند کردے۔

ایران کے ساتھ ہونے والی ڈیل میں پہلے سے ہی یورینیم کی افزودگی کے بارے میں ایک قسم کے پیرامیٹرز طے ہوچکے ہوئے۔

ایران آئی اے ای اے انسپکٹروں کو ملک بھر میں اپنی تمام سائٹس کا دورہ کرنے کی اجازت دے۔

پہلے سے ہی ایران کے تمام جوہری پلانٹس کو ادارہ اپنے شیڈول کے مطابق چیک کرتا رہتا ہے۔  

ایران بیلسٹک میزائل پروگرام کو ختم کرے اور ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے میزائلوں کی تیاری اور تجربات کو روک دے۔

ایران میں موجود امریکی یا امریکی اتحادیوں کے شہریوں کو جو قید میں ہیں یا پھر مسنگ ہیں، کو رہا کردے۔

جن امریکی نژاد ایرانیوں کی بات امریکہ کررہا ہے وہ ایران میں مختلف غیر قانوی سرگرمیوں بشمول جاسوسی کے الزامات کا سامنا کررہے ہیں۔ 

ایران مشرق وسطی میں دہشتگرد گروہ حزب اللہ، حماس، جہاد اسلامی فلسطین کی حمایت کرنا چھوڑ دے۔

مطلب اسرائیل کے مقابل جو بھی کھڑا ہے اس کی حمایت نہ کی جائے۔ 

ایران عراقی حکومت کو اجازت دے کہ و ہ (حشد الشعبی) مسلح افراد سے اسلحہ واپس لیں۔

بڑی بے شرمانہ بات کی ہے، عراقی حکومت کہتی ہے کہ اسے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں ایران کی مدد کی ضرورت ہے لیکن امریکہ ایران سے کہتا ہے کہ وہ عراقی حکومت سے کہے کہ حشد الشعبی جیسی اہم ترین فورس سے اسلحہ چھینا جائے تاکہ پھر کوئی داعش حملہ آور ہو۔

ایران یمن میں انصار اللہ کی حمایت بند کردے اور اس ملک میں امن کے لئے کوششیں کرے۔

یمن کی فضا، زمین اور دریا سب گذشتہ تین سالوں سے محاصرے میں ہیں، ایران صرف سیاسی و اخلاقی حمایت کررہا ہے تو کیا اب یہ حمایت بھی نہ کی جائے؟ جبکہ یمن پر ایک درجن ممالک نے مل کر چڑھائی کی ہوئی ہے یہ الگ بات ہے کہ انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

ایران شام سے اپنے کنٹرول میں موجود تمام فورسز کو باہر نکالے۔

شام کی قانونی حکومت کا کہنا ہے کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں ایران کی اسے ضرورت ہے تو اس بیچ امریکہ کون ہوتا ہے یہ مطالبہ کرنے والا جیساکہ ایرانی صدر روحانی نے بھی کہا۔

10۔ ایران افغانستان میں طالبان اور خطے میں دیگر شدت پسند گروہوں کی حمایت بند کردے۔

یہ ان مطالبات کا مضحیکہ خیز ترین حصہ ہے، یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی حضرت موسی علیہ السلام سے کہے کہ فرعون کی ظلم میں مدد نہ کرو ۔۔ جبکہ حضرت موسی خود فرعون کے ظلم کا شکار ہیں اور قوم کو اس ظلم سے بچانا چاہتے ہیں۔ 

11۔ ایران سپاہ پاسدران کے ذریعے خطے میں دہشتگرد گروہوں کی حمایت بند کردے۔

12۔ ایران اپنے ہمسائیوں کے بارے میں دھمکی آمیز رویہ چھوڑ دے کیونکہ ان میں سے بہت سے امریکی اتحادی ہیں۔

ایران کے ہمسائیوں پر کبھی بھی ایران کی جانب سےکوئی معمولی سا حملہ بھی نہیں ہوا لیکن ایران کے ہمسائے صدام کی جانب سے آٹھ سال ایران پر جنگ مسلط کی گئی۔ 

واضح رہے کہ جس طرح سعودی عرب اور درجن بھر ملک یمن پر چڑھائی کے لئے یمن کی عبوری حکومت کا سہارا لیکر بمباری کررہے ہیں اور اس بمباری کو عالمی سطح پر صرف یمن کی قانونی حکومت کی دعوت کے نام سے حمایت حاصل ہے بالکل اسی طرح ایران کے چند عسکری مشاروین کا عراق و شام میں موجود ہونا ان دونوں ملکوں کی قانونی حکومت کی درخواست پر دہشتگردی کیخلاف جنگ میں شریک ہونا ہے۔

فلسطین سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار عطوان کہتا ہے کہ "اگر ان شرائط کو بغور دیکھاجائے تو اس کا بنیادی ہدف اسرائیل کی مدد کرنا اور خطے میں اسرائیل کے اثر و رسوخ کو بڑھاوا دینا ہے۔"

بات صرف اس فلسطینی تجزیہ کار کی ہی نہیں بلکہ آج فلسطین میں موجود مزاحمتی تحریکیں سخت پریشیانی کا شکار ہیں کہ ان کے اطراف میں موجود عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ اس حدتک آگے بڑھ رہے ہیں کہ ہر وہ چیز جو اسرائیلی ایجنڈوں کے آگے کسی بھی پہلو سے رکاوٹ بن سکتی ہے، اس کی بھی مخالفت کررہے ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ کے الزامات کی اس لسٹ کے بارے میں خود امریکی کہتے ہیں کہ "یہ پومپیو کی اونچی اڑان بھرنے کی ایک ناکام کوشش ہے اس نے انتہائی غیر حقیقی باتیں اس لسٹ میں شامل کیں ہیں۔"

امریکہ میں فارن پالیسی اور سیکورٹی امور نیز اوباما انتظامیہ میں ایران کے ساتھ جوہری مذاکراتی ٹیم کا حصہ Robert Einhorn کا کہنا ہے کہ "اگر ٹرمپ انتظامیہ سمجھتی ہے کہ ایک اونچی اڑان بھرنے کی کوشش کرتے ہوئے مقاصد تک پہنچ سکتی ہے، تو یہ صرف خیالی پلاو کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔"

پومپیو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایران کو لیکر ہمیشہ یہ کہتا آیا ہے کہ "ایران کا پہلے اقتصادی محاصرہ کرو اور پھر نظام کو بدلو۔"

اس کا مطلب یہ ہے کہ شدید اقتصادی محاصرے سے ایران کو اس قدر دباو میں لے آو کہ نظام کیخلاف اندرونی طور پر ماحول سازگار بنے جیسا کہ اس سے پہلے وہ عراق میں کرچکے ہیں۔

لیکن ایران خطے میں ایک طاقتور ملک ہے جس کی طاقت اور اثر و رسوخ میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ان پابندیوں سے کچھ عرصے کے لئے ایران کی معیشت جزئی طور پر شدید دباو کا شکار ہوجائے لیکن آہستہ آہستہ وہ اپنی راہ پر چل نکلنے میں کامیاب ہونگے جس کا واضح ثبوت ابتک کی صورتحال ہے۔

خود امریکی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ایران کے بارے میں شدید کنفیوژن کا شکار ہے، وہ اقتصادی محاصرے میں ایران کی مزاحمتی قوت اور بحران سے نکلنے کی صلاحیت کو پیش نظر نہیں رکھ رہے کیونکہ تجربہ ثابت کرچکا ہے کہ ایران ان بحرانوں کا سامنا کرسکتا ہے۔

یہ بات بھی واضح ہے کہ اس وقت یورپی حکومتوں کی کوششوں کے باوجود بہت سی وہ کمپنیاں جو ایران میں سرمایہ کاری یا مختلف تجارتی معاہدے کررہی تھیں، یکے بعد دیگرے واپسی کا رخ اختیار کررہی ہیں اور دوسری جانب یورپ کی جانب سے امریکہ پر کڑی تنقید کے باوجود عملی طور پر کوئی بھی ایسا اقدام دکھائی نہیں دیتا جو اس بات کی ضمانت بنے کہ یورپ اس معاہدے کو لیکر آگے بڑھ سکتا ہے اور اگر بڑھ سکتا ہے تو اس کا ایران کو عملی طور پر کیسے فائدہ پہنچے گا ؟

ایران کے لئے سب سے اچھا یہی ہوگا کہ وہ اپنی معیشت کے حوالے سے چین، روس اور دیگر ممالک کی جانب زیادہ توجہ دے بجائے اس کہ کہ وہ یورپ کے ساتھ اپنا وقت ضائع کرے۔

بشکریہ:Focus on West & South Asia - URDU

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری