امریکا نے گھٹنے ٹیک دئے؛ بالآخر افغان طالبان سے براہ راست مذاکرات کا اعلان کر ہی دیا


امریکا نے گھٹنے ٹیک دئے؛ بالآخر افغان طالبان سے براہ راست مذاکرات کا اعلان کر ہی دیا

جنرل جان نکلسن نے اپنے ایک بیان میں طالبان سے براہ راست مذاکرات کیلئے آمادگی کی تصدیق کی جس سے واضح ہوگیا ہے کہ امریکا 17 سال بعد طالبان کے سامنے گھٹنے تیکنے پر مجبور ہوگیا ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق امریکا نے افغان طالبان سے براہ راست مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کردیا۔

برطانوی خبر رساں ایجنسی نے رپورٹ دی ہے کہ افغانستان میں موجود امریکی فوج کے سربراہ اور کمانڈر ریسولوٹ سپورٹ فورسز جنرل جان نکلسن نے اپنے ایک بیان میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ امریکا طالبان سے براہ راست مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

جنرل جان نکلسن کا کہنا ہے کہ افغان طالبان سے براہ راست مذاکرات کا مقصد افغانستان میں 17 سال سے جاری جنگ کو ختم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔

خیال رہے کہ امریکی جنرل کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب افغان حکومت بھی طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے سفارتی کوششیں کررہی ہے۔

عید الفطر کے موقع پر افغان طالبان اور حکومت نے جنگ بندی کا اعلان کیا تھا جبکہ جنگ بندی کے دوران غیر مسلح افغان جنگجوؤں اور افغان سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو کابل کے گلیوں میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے دیکھا گیا تھا۔

افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل جان نکلسن کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ہم سے کہا ہے کہ امریکا افغانستان میں بین الاقوامی فورسز کے مستقبل کے حوالے سے طالبان سے مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ طالبان اس کا احساس کریں گے اور یہ قدم امن عمل کو آگے بڑھائے گا۔

یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سفارتکاروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ طالبان سے براہ راست بات کرنے کی کوشش کریں تاکہ مذاکرات جلد شروع ہوسکیں۔

طالبان کا خیر مقدم

قطر میں موجود طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ وہ اس خبر کی تصدیق کے منتظر ہیں البتہ اس نئی امریکی حکمت عملی کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

اپنے بیان میں انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم بھی یہی چاہتے تھے کہ امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کیے جائیں اور ملک سے غیر ملکی افواج کے انخلاء پر بات کی جائے‘۔

سہیل شاہین نے کہا کہ اگر یہ بات درست ہے کہ امریکا براہ راست مذاکرات چاہتا ہے تو اس سلسلے میں پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ سے طالبان رہنماؤں کے نام خارج کیے جانے چاہئیں تاکہ وہ سفر کرنے کے اہل ہوسکیں۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں غیر ملکی افواج کی موجودگی مذاکرات کا سب سے اہم نکتہ ہوگا البتہ طالبان امریکی خدشات پر بھی بات چیت کرنا چاہیں گے۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس افغانستان میں امریکی فضائی حملوں میں اضافے کے باوجود ملک کے زیادہ تر حصوں پر طالبان کا کنٹرول برقرار ہے اور یہ صورتحال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے پریشان کن ہے۔

طالبان پہلے ہی صدر اشرف غنی کی حکومت سے مذاکرات سے انکار کرچکے ہیں کیوں کہ وہ اسے غیر قانونی سمجھتے ہیں اور افغان حکومت کے بجائے امریکا سے بات چیت چاہتے ہیں تاہم مذاکرات کے آغاز کیلئے ان کی شرط یہ ہے کہ غیر ملکی افواج افغان سرزمین سے نکل جائیں۔

امریکا ماضی میں یہ مؤقف اختیار کرتا رہا ہے کہ امن عمل افغان حکومت کی قیادت میں ہونے چاہئیں البتہ اب امریکا نے اپنے مؤقف میں تبدیلی کی ہے اور اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ ان مذاکرات کا حصہ بن سکتا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ امریکا افغانستان میں غیر ملکی افواج کے مستقبل پر بات کرنے کے لیے تیار ہے۔

خیال رہے کہ حالیہ دنوں میں مائیک پومپیو اور دیگر سینیئر امریکی عہدے داروں نے کابل کا دورہ کیا تاکہ مذاکرات کے لیے راہ ہموار کی جاسکے۔

البتہ افغانستان میں جاری جنگ کے خاتمے میں اب بھی کئی رکاوٹیں موجود ہیں، تمام فریقین کہتے ہیں کہ وہ امن چاہتے ہیں اور مذاکرات کیلئے بھی تیار ہیں تاہم 2015 میں شروع ہونے والے امن مذاکرات تعطل کا شکار ہیں اور اب تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔

اہم ترین دنیا خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری