پاکستان میں چینی باشندوں کی حکمرانی جبکہ چین میں مسلم اکثریتی شہر میں بھی مسلمانوں پر سخت پابندیاں


پاکستان میں چینی باشندوں کی حکمرانی جبکہ چین میں مسلم اکثریتی شہر میں بھی مسلمانوں پر سخت پابندیاں

چین کے شہر لنشیا میں فضاءپر سبز گنبد والی مساجد کا غلبہ نظر آتا ہے مگر اب وہاں ایسی تبدیلیاں کی جارہی ہیں جس سے مسلمانوں کے اندر اپنے مذہب کی بقاءکے حوالے سے تشویش اجاگر ہورہی ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق مقامی افراد کا کہنا ہے کہ انہیں ڈر ہے کہ دانستہ طور پر اسلام کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔

اس مقصد کے لیے حکمران کمیونسٹ پارٹی نے 16 سال سے کم عمر بچوں کی مذہبی سرگرمیوں یا اسلامی تعلیم پر پابندی عائد کردی ہے۔

مغربی چین میں واقع لنشیا ایسا اسلامی خطہ ہے، جہاں ماضی میں مقامی حوئی مسلمانوں کو ہر قسم کی مذہبی آزادی حاصل تھی۔

چین کے زیر تحت ایک اور مسلم اکثریتی خطہ سنکیانگ، میں پہلے ہی 'مذہبی انتہا پسندی' اور 'علیحدگی پسندی' کے نام پر ایسے اقدامات کیے گئے ہیں، جن سے مسلمانوں کی زندگی بری طرح متاثر ہوئی۔

اب حوئی مسلمانوں کے خلاف بھی ایسے ہی اقدامات کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔

ایک مقامی سنیئر امام نے نام چھپانے کی شرط پر بتایا ' فضا میں تبدیلی آرہی ہے، میں بہت خوفزدہ ہوں کہ انتظامیہ کی جانب سے سنکیانگ ماڈل کا نفاذ یہاں بھی کیا جارہا ہے'۔

مقامی انتظامیہ کی جانب سے صرف 16 سال سے زائد عمر کے طالبعلموں کو مدارس میں داخلے کی اجازت دی جارہی ہے جبکہ نئے امام کی سرٹیفکیشن کا عمل بھی محدود کردیا گیا ہے۔

اسی طرح مساجد کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ قومی پرچم کو نصب کریں جبکہ بلند آواز سے اذان نہ دیں تاکہ 'آواز کی آلودگی' کو کم کیا جاسکے، اس مقصد کے لیے 355 مساجد سے لاﺅڈ اسپیکرز کو ضبط کیا جاچکا ہے۔

سنیئر امام کے مطابق ' یہ مسلمانوں کو سیکولر بنانا چاہتے ہیں اور اسلام کی جڑوں کو کاٹنا چاہتے ہیں، موجودہ عہد میں بچوں پر مذہب تسلیم کرنے پر پابندی ہے اور انہیں کمیونزم اور پارٹی پر یقین سیکھاجارہا ہے'۔

ایک ہزار سے زائد لڑکے گرمیوں اور سرما کی تعلیمی تعطیلات کے دوران مساجد میں قرآن کی تعلیم حاصل کرتے تھے، مگر اب انہیں مساجد میں داخلے سے ہی روک دیا گیا ہے۔

والدین کو کہا گیا ہے کہ بچوں پر یہ پابندی خود ان کے لیے بہتر ہے، جس سے انہیں اپنے اسکول کے کام پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد ملے گی۔

مگر بیشتر افراد اس پر تشویش کا شکار ہیں اور ایک 45 سالہ خاتون نے خدشات کا اظہار ان الفاظ میں کیا ' ہم خوفزدہ، بہت خوفزدہ ہیں، اگر ایسا ہی چلتا رہا تو ایک یا 2 نسلوں کے بعد ہماری روایات دم توڑ چکی ہوں گی'۔

حوئی مسلمانوں کی تعداد ایک کروڑ کے قریب ہے جو کہ چین میں مسلمانوں کی مجموعی آبادی کا 50 فیصد ہے۔

رپورٹ کے مطابق رواں سال جنوری میں حکم نامہ جاری کیا تھا اور مساجد کے عہدیداران یا اداروں پر پابندی عائد کی گئی تھی کہ وہ قرآنی تعلیم یا مذہبی سرگرمیوں کے لیے بچوں کو مساجد میں داخل ہونے کی سپورٹ نہیں کریں گے۔

اہم ترین دنیا خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری