تحریر| پاکستان میں اردو کا نفاذ کیوں ضروری ہے؟


تحریر| پاکستان میں اردو کا نفاذ کیوں ضروری ہے؟

کرۂ ارض کی پانچ ہزار سالہ مرقومہ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کی کسی بھی قوم نے اس وقت تک ترقی نہیں کی جب تک اس نے اپنی زبان کو ہر شعبہ میں ذریعہ اظہار نہیں بنایا۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا پیغام

میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور صرف اردو، اور اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں ہو گی۔ دیگر اقوام کی تاریخ اس امر پر گواہ ہے کہ ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی اور کام کر سکتی ہے،پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے وہ صرف اور صرف اردو ہی ہو گی۔
21 مارچ 1948 ڈھاکہ

مگر پتا نہیں کہ ہم کس احساسِ کمتری اور غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ اردو زبان کو بطور سرکاری اور دفتری زبان نافذ کرنے میں ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اردو زبان کے دامن میں کس چیز کی کمی ہے یہ علما کا اظہار بیاں، صوفیا کا ذریعہ ابلاغ اور صحافیوں کی آلۂ کار ہے۔شعرا و اُدبا کا سرمایۂ حیات ہے۔

مائیں بڑے پیار سے اپنے بچوں کو یہ زبان سکھاتی ہیں۔ اس میں ادبی، سیاسی، قومی، معاشی، معاشرتی، طبی، جغرافیائی، سائنسی اور مذہبی علوم کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ اس میں قرآن پاک کے تراجم، بے شمار تفاسیر اور احادیث شائع ہوچکی ہیں۔ گویا یہ نہ صرف پاکستانیوں بلکہ مسلمانوں کی ایک معتبر اور ثقہ بند زبان ہے۔ پاکستانی اور ہندوستانی پوری دنیا میں پھیل چکے ہیں۔ پاکستان کی تبلیغی جماعت پوری دنیا میں جاتی ہے جو تبلیغ کے ساتھ ساتھ اردو کی ترویج کا بھی سبب بنتی ہے۔ اس کی وسعت اور مقبولیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش، کشمیر، افغانستان اور بھارت کے کروڑوں انسان اردو بولتے، لکھتے، پڑھتے اور سمجھتے ہیں۔ ان ملکوں سے اردو میں لاکھوں کتابیں چھپتی ہیں۔ بہت سے اخبارات، ماہنامے اور سالنامے شائع ہوتے ہیں۔ پاکستان اور انڈیا میں اس کے فروغ کے لیے بہت سے ادارے سرگرم عمل ہیں۔

پاکستان کے ہمسایہ ممالک ترکی، ایران اور چین میں بھی اردو کی تعلیم جامعات میں دی جاتی ہے۔ سعودی عرب، خلیج کی ریاستوں اور یورپی ممالک برطانیہ، امریکا، جرمنی، فرانس اور کینیڈا میں لاکھوں افراد کی زبان اردو ہے اور وہاں اس میں کتابیں، روزنامے اور رسالے بھی چھپ رہے ہیں۔ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق انگریزی اور چینی دو بڑی زبانیں ہیں، جبکہ اردو دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے۔ اقوام متحدہ کی ہر رپورٹ کا ترجمہ اس میں شائع ہوتا ہے۔ یہ تو کسی طرح سے بھی کمتر نہیں ہے۔ اردو ادب کے عظیم سپوتوں غالب، اقبال اور فیض شناشی پر پاکستان کے علاوہ بھارت، ایران، ترکی، اٹلی، فرانس، چین، جاپان، امریکا، کینیڈا، برطانیہ، سعودی عرب اور دیگر کئی چھوٹے بڑے ممالک میں کام ہو رہا ہے۔ 

 

یاد رہے دستور پاکستان کے آرٹیکل 251 کے مطابق:
1۔ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور یوم آغاز سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے۔
2۔ شق ۔ 1 کےتابع، انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری اغراض کے لیے استعمال کی جاسکے گی، جب تک کہ اس کے اردو سے تبدیل کرنے کے انتظامات نہ ہوجائیں۔
3۔ قومی زبان کی حیثیت کو متاثر کیے بغیر، کوئی صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعہ قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم، ترقی اور اس کے استعمال کے لیے اقدامات تجویز کرسکے گی۔

 لہٰذا اردو کو سرکاری اور دفتری زبان کے لحاظ سے مکمل طور پر نافذ کرنا پاکستان کے بیس بائیس کروڑ عوام کا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جمہوری اور قانونی استحقاق بھی ہے۔ یقین نہ آئے تو اردو کے حق میں رائے دہی کرا کے دیکھ لیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ عوام کی خواہشات و جذبات کا احترام کرتے ہوئے اور ملک و قوم کے اجتماعی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اردو کو فوری طور پر نافذ کیا جائے۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری