جج صاحبان کو انگریزی نہیں آتی لیکن فیصلے انگریزی میں لکھتے ہیں، سابق چیف جسٹس


جج صاحبان کو انگریزی نہیں آتی لیکن فیصلے انگریزی میں لکھتے ہیں، سابق چیف جسٹس

پاکستان کے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ اردو کو سرکاری زبان بنانے کے ستمبر2015ء کے حکم پر عمل درآمد نہ ہونے پر برس پڑے۔

تسنیم خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے لاہور میں بیدیاں روڈ پر ٹھیٹر گاؤں میں قائم ہر سکھ اسکول میں بچوں کو انگریزی پڑھانےکے دوران جیو نیوز سے گفتگو کی۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ بیشتر جج صاحبان کو انگریزی نہیں آتی لیکن فیصلے انگریزی میں لکھتے ہیں،ملزمان کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ ان کے بارے میں کیا بات ہو رہی ہے۔

سابق چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتوں میں قومی زبان لکھی اور بولی جائے تو ملزمان کو پتا چل سکے گا کہ عدالت میں ان سے متعلق کیا باتیں ہو رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جج آئین کی پاسداری کا حلف اٹھاتے ہیں،آئین میں تو ذکر ہی قومی و صوبائی زبانوں کا ہے،اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا ہےجب آئین اجازت نہیں دیتا توجج انگریزی میں فیصلہ کیوں لکھتے ہیں؟

تعلیمی پالیسی کے حوالے جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ پاکستان میں بے شمار کمیشن بنے،حکومت خود دیکھے کہ وہ کیا کر رہے ہیں،اگر تعلیم کسی کو انسان نہیں بناتی،تو وہ تعلیم نہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں نے بطور چیف جسٹس 8ستمبر 2015ء کو  آئین کے تحت قومی زبان اردو کو ہر جگہ بطور سرکاری زبان اپنا نے کا حکم دیا تھا،اس حکم پر عمل درآمد ہوجائے تو زبان کے حوالے سے درپیش مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

 

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری