کیا اکتوبر 2005 کو آنے والا زلزلہ تھم گیا ہے؟؟


کیا اکتوبر 2005 کو آنے والا زلزلہ تھم گیا ہے؟؟

11 برس بیت گئے۔۔۔ 11 سردیاں، 11 گرمیاں، 11 خزائیں بیت گئیں، مگر دکھ کی بات تو یہ ہے کہ متاثرین زلزلہ نے ان 11 سالوں میں بہار نہیں دیکھی۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق، اکتوبر 2005 کو آنے والا زلزلہ ابھی تک تھما نہیں ہے۔

ہاں البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر سال باقاعدگی سے خوبصورت فرنیچر سے مزین بڑے بڑے ہالز میں سیمینار منعقد کر کے ہم 8 اکتوبر 2005 کو آنے والے زلزلے کی یاد منانے کا فریضہ بڑے احسن طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں۔

کاش ان سیمینار میں چائے کے وقفے کے دوران ہی ہماری ایک اچٹتی ہوئی نگاہ کھڑکیوں پر پڑے دبیز مخملی پردوں کے پار ان علاقوں پر پڑ جائے جہاں زندگی آج بھی سسکتی ہے۔

آئیے ذرا اس وقت کا جائزہ لیں جب زمین نے کروٹ لی اور لاکھوں لوگوں کی زندگیاں حقیقتا تہہ و بالا ہو گئی تھیں۔

اگر سادہ ترین الفاظ میں تحریر کیا جائے تو 8 اکتوبر 2005 کی صبح آزاد کشمیر، اسلام آباد، ایبٹ آباد، خیبرپختونخوا اور ملک کے بالائی علاقوں میں 7.6 ریکٹر سکیل کا زلزلہ آیا۔ جس کا مرکز  اسلام آباد سے 95 کلومیٹر دور اٹک اور ہزارہ ڈویژن کے درمیان تھا۔

یہاں ہم قصدا جانی نقصان کی بات نہیں کریں گے کیونکہ حکومتی بےحسی بلکہ ظلم کی وجہ سے تاحال متاثرین زلزلے کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے۔

ہمارا اشارہ اسکول کی تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے کڑکتی گرمیوں اور خون جماتی ٹھنڈ میں کھلے آسمان تلے پڑھائی کرنے پر مجبور ہزاروں بچے ہیں، علاقوں میں اسپتال نہ ہونے کی وجہ سے پریشان حال مریض ہیں، 9 سال قبل 12 ارب روپے کی رقم سے شروع ہونے والا نیو بالاکوٹ منصوبہ ہے جس کے لئے حکومت نے ساڑھے 11 ہزار کنال زمین حاصل کی تھی، آزاد کشمیر میں 234 مختلف ترقیاتی منصوبے ہیں جن میں سے کچھ ہی مکمل ہو سکے۔

عالمی امدادی اداروں کے سروے کے مطابق، اس زلزلے میں 5 ارب 20 کروڑ ڈالر کے نقصانات ہوئے تھے۔

9 متاثرہ اضلاع میں 141 سڑکیں اور 92 پل تباہ ہو گئے تھے جن کی دوبارہ تعمیر کے لئے 29 ارب 30 کروڑ روپے سے زائد کی رقم مختص کی گئی تھی۔

کم و بیش 6 لاکھ گھر مکمل طور پر تباہ ہو گئے تھے متاثرہ علاقوں میں 6 ہزار 300 تعلیمی ادارے، 800 مرکز صحت اور 6 ہزار چھوٹی بڑی سڑکوں کو زلزلہ سے نقصان پہنچا تھا۔

بلاشبہ اتنے بڑے پیمانے پر از سر نو تعمیر کرنا اتنا آسان کام نہیں ہے لیکن 11 سال اور ملکی و غیر ملکی بےحساب مالی امداد کے بعد بھی، 11 سردیوں، 11 گرمیوں اور 11 خزاوں کے گزر جانے پر بھی اگر زلزلے سے متاثرہ علاقوں کی مکمل بحالی نہیں ہو پائی تو بہار کب آئے گی؟؟

دن، ہفتوں، ہفتے مہینوں اور مہینے سالوں میں تبدیل ہوتے ہوتے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے کہ ایک قدرتی آفت تھی جو آ کر گزر گئی مگر 11 سالوں سے جاری حکومتی آفت نجانے کب ٹلے گی۔

بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ اکتوبر 2005 کا زلزلہ ایک حادثہ تھا جسے حکومت نے سانحے میں تبدیل کر دیا ہے۔ جو 11 سال پہلے آیا تھا، متاثرین آج بھی اس زلزلے کے تھمنے کا انتظار کر رہے ہیں۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری